آصف احمد بھٹی
محفلین
یتیم
آصف احمد بھٹی
آصف احمد بھٹی
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہواسب کی نظریں اُس کی طرف اُٹھ گئی اوراُس کے قدم بھی دروازے میں ہی جم گئے سارا صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا , بابا صحن میں چارپائی ڈالے سفید چادر اُوڑھے سورہے تھے اماں اور اُس کی دونوں بہنیں اور پھوپھو اُن کے سرہانے بیٹھی رورہی تھی , محلے کی کچھ عورتیں بھی اُن کے پاس بیٹھی رو رہی تھی اماں اُسے دیکھتے ہی ڈھاریں مارنے لگی وہ حیران وپریشان وہیں کھڑا رہ گیا , جانے چاچا کہاں سے آگئے وہ بھی رو رہے تھے انہوں نے اُسے اُٹھا کرسینے سے لگا لیا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سب کیو ں رو رہے ہیں اور اتنے شور میں بابا سو کیسے رہے ہیں پھر اماں نے بھی اُسے خود سے چمٹا لیا وہ بری طرح رو رہی تھی اُس کی بہنیں اور پھوپھوبھی اُس سے لپٹ گئی ۔
ہائے! میرا بچہ ۔ اماں اُسے سینے سے لگائے کہہ رہی تھی ۔ تو یتیم ہوگیا ۔ ایک تیر سا اُس کے سینے میں اُتر گیا اُس نے چونک کر بابا کو دیکھا , وہ عمر کے اُس حصے میں تھا کہ وہ یہ باتیں نہیں سمجھ سکتا تھا مگرکڑی دھوپ میں سایہ اُٹھ جانے اورجلنے کا احساس اُسے شدت سے محسوس ہوا اُس کی آنکھوں میں خود بخود آنسو آگئے ۔
کیا بابا اب کبھی نہیں اُٹھیں گے؟ اُس نے خود سے سوال کیا ۔ کیا اب کبھی بھی اُسے پیار نہیں کرینگے ؟ کیا وہ کبھی اُن کی کمر پر بیٹھ کر سواری نہیں کرسکے گا ؟ جواب نفی میں تھا وہ رونے لگا ۔
نہ رو میرے بچے ! اماں تڑپ کر اُس کے آنسو پونجنے لگی ۔
اماں بابا کو کیا ہوا ہے ۔ اُس نے اماں سے سوال کیا ۔
علی ! بابا مر گئے ۔ اماں سے پہلے ہی آپی بول پڑی ۔
بابا مر گئے ۔ اُس نے دہرایا ۔
نہیں بیٹا ۔ اماں جلدی سے بولی ۔ تیرے بابا شہید ہوئے ہیں اور شہید مرا نہیں کرتے ۔
تو پھر یہ اُٹھ کر بیٹھتے کیوں نہیں ۔ اُس نے پوچھا اماں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا وہ اُسے سینے سے لگا کر پھر رونے لگی ۔
بھابی ! آپ زیادہ مت روئیں ۔ پھوپھو نے اُسے اماں کی گود سے اُتار لیا ۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ اُس نے چونک کر اماں کو دیکھا ۔
کیا اماں بھی مرجائینگی ۔ اُس نے سوچا اور پھر تڑپ کر پھوپھو کی گود سے اُترا اور اماں سے لپٹ کر بری طرح رونے لگا ۔
علی ! مت رو بیٹا ۔ پھوپھو اُسے پچکارنے لگی مگر ایک سیلاب تھا جو اُس کے اندر اُمڈ آیا تھا آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اماں بھی پریشان ہوگئی وہ اپنا دکھ بھول کر اُسے چپ کروانے لگی , چاچا بھی لپک کر آ گیا , پھوپھو نے بھی بہترا پچکارا مگروہ اماں سے لپٹے روتا رہا وہ بابا کی طرف دیکھنے سے احتراز کر رہا تھا مگر جب چاچا اور بابا کے دوست اُن کی میت اُٹھا کر قبرستان جانے لگے تو وہ بابا سے لپٹ گیا ۔
بابا ! دیکھئے میں ہوں ۔ وہ اُن کا چہرہ اپنے ننھے منے ہاتھوں میں لیکر بولا۔
بابا ! اُٹھئے نا ۔ مگر بابا نے کوئی جواب نہ دیا ۔
علی ! بیٹا پیچھے ہٹو۔ چاچا نے اُسے پیچھے ہٹانا چاہا ۔
نہیں ! وہ بابا پر بچھ گیا ۔ میرے بابا کو مت لیجاؤ ۔ اُس نے چاچا سے التجا کی ۔
علی ! چاچا نے زبردستی اُسے اُٹھا لیا ۔
مجھے چھوڑوں ! وہ چاچا کا منہ نوچنے لگا ۔ میں بابا کے ساتھ جاؤنگا ۔ چاچا نے اُسے سینے سے چمٹا لیا وہ بری طرح ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔
مجھے چھوڑو ! اُس نے چاچا کو گالی بھی دیدی بابا کے دوستوں نے بابا کی میت اُٹھالی ۔
مجھے چھوڑو ! میں بس ایک بار بابا کو دیکھونگا ۔ اُس نے التجا کی چاچا اُسے میت کے پاس لے گیا اُس نے بابا کے بوسہ دیا چاچا نے اُسے پھوپھو کے حوالے کیا اور میت اُٹھا کر گھر سے نکل گئے وہ بابا کے کمرے کے باہرجا بیٹھا , چاچا اور اُن کے دوست بابا کو دفنا کر لوٹ آئے , پھوپھو نے کھانا ل اکراُس کے سامنے رکھا , مگر وہ بھیگی بھیگی پلکیں لیے یونہی بیٹھا رہا , اماں اپنے کمرے کے دروازے میں بیٹھی رورہی تھی اُس کی دونوں بہنیں اُن کے دائیں بائیں اُن سے لپٹی بیٹھی تھی , وہ دور بیٹھا بس اُنہیں دیکھتا رہا , وہ رات یونہی سوتے جاگتے گزر گئی , وہ ایک دن اُس کی عمر میں کئی سال کا اضافہ کرگیا , وہ پہلے والا علی نہیں رہا تھا , پانچ سال کی عمر میں ہی وہ پکی عمروں والی سوچ رکھنے لگا تھا وہ اُس دن کے بعد رویا نہیں تھا بلکہ چپ چپ رہنے لگا تھا , اماں پھوپھو اور اُس کی بہنیں کئی دن تک روتی رہی تھی , وہ چپ چاپ ایک طرف بیٹھا اُنہیں دیکھتا رہتا تھا , آنسو جیسے خشک ہو گئے تھے , کچھ دن بعد وہ پھر سے اسکول جانے لگا , زندگی پھر اپنی پرانی روش پر چل پڑی بس اک کمی تھی تو بابا کی جسے وہ شدت سے محسوس کر رہا تھا , یوں تو بابا پہلے بھی چھٹیوں میں کچھ ہی دن کے لیے گھر آتے تھے مگر پھر بھی ایک امید رہتی تھی جو کہ اب بلکل ختم ہو گئی تھی , یہی گھر کچھ دن پہلے تک اُس کے اوراُس کی بہنوں کے قہقہوں گھونجتا رہتا تھا , مگر اب گھر میں مکمل خاموشی رہتی تھی اماں کی طبیعت اکثر خراب رہتی تھی وہ اپنازیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی اُس کی بہنیں بھی اُن کے پاس رہتی اور وہ بھی اسکول سے آ کر اپنے کمرے میں ہی رہتا تھا , کبھی کبھی جب خاموشی کاٹنے کو دوڑتی تو باہر نکل جاتا , مگر اب اُس کا دل کسی چیز میں نہیں لگتا تھا , مگر ایک دن جب وہ اسکول سے گھر آیا تو چونک گیا گھر کی خاموش فضا میں ننھی ننھی آوازیں اُبھر رہی تھی اُس کی دونوں بہنیں اُسے دیکھتے ہی چہکتی ہوئی اُس کے پاس آئی ۔
علی ! اللہ نے ہمیں ایک اور بھائی دیا ہے ۔ باجی اُس کا گال مسلتے ہوئے بولی وہ چونک گیا آپی بھی مسکرا رہی تھی بابا کے جانے کے بعد پہلی خوشی نے گھر میں قدم رکھ دیا تھا , اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے , بہنیں پھر اماں کے کمرے میں بھاگ گئی اُس نے اسکول بیگ اپنے کمرے میں رکھا اور اماں کے کمرے کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا , اندر سے نئے مہمان کے رونے کی آوازیں آرہی تھی , اچانک پھوپھو اماں کے کمرے سے نکلی اُسے وہاں کھڑا دیکھ کر مسکرائی ۔
علی ! تو نے بھائی کو دیکھا ہے ۔ اُس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
چل آ تجھے دکھاؤں ۔ وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اماں کے کمرے میں داخل ہو گئی , اماں اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی , وہ بھی اُسے دیکھ کر مسکرائی سب خوش تھے , اُس کی نظر اماں کے پہلو میں لیٹے کپڑوں میں لپٹے اورروتے ہوئے ننھے سے جسم پر پڑی جانے کیوں اُس کے اندر بھی خوشی کا آبشار پھوٹ پڑا ۔
علی ! اماں نے آہستہ سے پکارا ۔ بیٹا آگے آؤاپنے بھائی کو دیکھو۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اماں کے قدرے قریب چلا گیا ۔
دیکھو علی ! یہ بلکل بابا جیسا ہے ۔ باجی اُس کے چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہوئے بولی , اُسے ایک جھٹکا سا لگا اور وہ تیر کی طرح اُس تک پہنچا اور جھک کر اُسے دیکھنے لگا , وہ رو رہا تھا , علی اُس کے پاس بیٹھ گیا , ایک ہاتھ سے اُس کے چہرے پر پڑا کپڑا ہٹایا , روتا ہوا بچہ اُس کا لمس پا کر ایک لمحے کو چونکا اور آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے لگا , اُس نے رونا بھی بند کر دیا , ایک لمحے میں محبت کا ایک گہرا سمندر اُس کے سینے میں موجزن ہو گیا , اُس نے جھک کر اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
بیچارہ ! پیدا ہونے سے پہلے ہی یتیم ہو گیا ۔ پھوپھو تاسف سے بولی اُسے ایک جھٹکا سا لگا وہ اُس کا معصوم ساچہرہ دیکھنے لگا ۔
نہیں ! وہ تڑپ کر پھوپھوکی طرف مڑا ۔ میرا بھائی یتیم نہیں ہے آج سے میں اس کا بابا ہوں خبردار جو کسی نے میرے بھائی کو یتیم کہا ۔ سب حیرت سے اُسے دیکھنے لگے اماں کی بھی سسکی سی نکل گئی ۔
یہ یتیم نہیں ہے ۔ وہ پھر اُس پر جھک گیا ۔ یہ میرا بیٹا ہے میں اس کا بابا ہوں ۔
آصف احمد بھٹی
آخری تدوین: