اگر مستعار نہیں لی گئیں تو ذرا بتائیں کہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی بہت سی تعلیمات یکساں کیوں ہیں؟
کیا قرآن مقدس میں زمین کے گول ہونے کا ذکر آیا ہے؟ یا ڈائنوسارز کے معدوم ہونے کا ذکر آیا ہے؟ لیکن آج ہمیں جدیدسائنسی علوم اور عملی مشاہدات کے بعد ان ناقابل تردید حقیقتوں کے بارہ میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔
اگر قرآن پاک میں کسی شےکا ذکر نہیں توا سکا یہ مطلب کیوں لیا جائے کہ اس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں؟
اور اس تحریف کا کوئی ناقابل تردید اثبوت؟ بعض یہود و نصاریٰ کے مطابق تو الٹا قرآن پاک میں انکے قدیم مقدس صحیفوں کی تحریف کر کے نئے دین کا نام دیا گیا ہے۔ بقول عیسائی بازنطینی حکمران مانوئل دوم کے:
Show me just what Muhammad brought that was new and there you will find things only evil and inhuman, such as his command to spread by the sword the faith he preached
http://en.wikipedia.org/wiki/Manuel_II_Palaiologos#Pope_Benedict_XVI_controversy
کیتھولک پاپائے روم نے یہی جملے 2006 میں ایک تقریر کے دوران دہرا دیئے جسکے جواب میں پورے عالم اسلام میں اسکے خلاف بہت دنگا فساد ہوا تھا۔
اسلام سے پہلے کی تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، یہ تو اسلامی تعلیم ہے۔ بقول عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ علیہلسلم کی آمد سے پہلے اور بعد کی تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ اور قریباً یہی مؤقف یہودیوں کا ہے کہ چونکہ تمام ادیان ابراہیمی قدیم یہودی مذہب سے متاثر ہیں اسلئے اصل شریعت موسوی ہی ہے اور اسکے بعد میں آنے والی مسیحی اور اسلامی شریعتیں تحریف شدہ ہیں اور انکا کا کوئی جواز نہیں! اب آیا نہ ہاتھی پہاڑ کے نیچے
افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ اسلامی دہشت گردوں کو وہاں سے پاکستان، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا ہے اور آ پ یہاں کسی اور ہی دنیا میں مگن ہیں
جی کونسے دو سربراہ؟
مطلب یہاں حالیہ دور کے اسلامی جہادیوں کے جد امجد مولانا مودی خود اقرار کر رہے ہیں یہودی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں تمام امت مسلمہ کی اجتماعی شکست جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اسرائیل کیخلاف جہاد اللہ کی منشاء کے مطابق ہوتا تو ان 67 سالوں میں ضرور مسلمان اسرائیل کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوتے۔ جب کہ ہوا اسکے برعکس یعنی خود پیشتر مسلمان ممالک اسوقت بدحالی کا شکار ہیں۔