یقیناً کھینچ لائیں گی (آزاد نظم)

فاخر

محفلین

آزادنظم

بحر کی پابندی اور قافیہ و ردیف کی بغیر پابندی کے ساتھ:

افتخاررحمانی فاخرؔ

بچھڑ کے ناگہاں اک روز
خفا ہوکے مجھی سے تم
کہاں! کس سمت جاؤگے؟
خدا حافظ کہوں کیسے؟
شہِ رگ میں لہو بن کے
جو دوڑے ہے تسلسل سے
اُسے کیوں کر
میں یہ کہہ دوں
چلو اچھا ”خدا حافظ“
طلوعِ فجر کے جیسا
مجھے پختہ
یقیں ہے یہ
مرے اشکوں کی تاثیریں
تجھے خلقت کے گھیرے سے
یقیناً کھینچ لائیں گی
تجھے اپنا بنائیں گی....!


اس صنف میں پہلی بار طبع آزمائی کررہا ہوں ؛ اس لیے تمام اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
 
فاخر بھائی!

یہ نثری نظم نہیں بلکہ ایک آزاد نظم ہے جو کم از کم بحر کی پابندی سے آزاد نہیں ہوتی۔ ہم اسے اصلاح سخن میں منتقل کررہے ہیں کیونکہ یہ نظم مفاعیلن کی تکرار ہے۔ دو ایک مصرعے کچھ تبدیلی کرنے سے بہتر ہوسکتے ہیں جیسے


آزادنظم
بحر کی پابندی اور قافیہ و ردیف کی بغیر پابندی کے ساتھ:

افتخاررحمانی فاخرؔ

بچھڑ کے ناگہاں اک روز
خفا ہوکے مجھی سے تم
کہاں! کس سمت جاؤگے؟
خدا حافظ کہوں کیسے؟
شہِ رگ میں لہو بن کے
جو دوڑے ہے تسلسل سے
اُسے کیوں کر
میں یہ کہہ دوں
چلو اچھا ”خدا حافظ“
طلوعِ فجر کے جیسا
مجھے پختہ
یقیں ہے یہ
مرے اشکوں کی تاثیریں
تجھے خلقت کے گھیرے سے
یقیناً کھینچ لائیں گی
تجھے اپنا بنائیں گی....!


اس صنف میں پہلی بار طبع آزمائی کررہا ہوں ؛ اس لیے تمام اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔

بچھڑ کے ناگہاں اک روز
مجھ سے تم خفا ہوکر
کہاں! کس سمت جاؤگے؟
خدا حافظ کہوں کیسے؟
رگوں میں یوں لہو بن کے
جو دوڑے ہے تسلسل سے
اُسے کیوں کر
میں یہ کہہ دوں
چلو اچھا ”خدا حافظ“
طلوعِ فجر کے جیسا
مجھے پختہ
یقیں ہے یہ
مرے اشکوں کی تاثیریں
تجھے خلقت کے گھیرے سے
یقیناً کھینچ لائیں گی
تجھے اپنا بنائیں گی....!

 
اچھی نظم ہے فاخر، ماشاءاللہ اور بھائی خلیل کی اصلاح کے بعد مزید نکھر گئی ہے. دو ایک نکات اور دیکھ لیجیے.

مجھے پختہ
یقیں ہے یہ
یہاں مصرعے کی تکسیر کی ضرورت نہیں، بہتر ہے کہ ان دونوں لائنوں کو ایک ہی مصرع بنائیں.

مرے اشکوں کی تاثیریں
تجھے خلقت کے گھیرے سے
یقیناً کھینچ لائیں گی
تجھے اپنا بنائیں گی....!
آخری سطر میں اپنا کی ضمیر مشتبہ ہے کہ اشکوں کی تاثیر کی طرف لوٹتی محسوس ہوتی ہے. میرے خیال میں اپنا کے بجائے یہاں میرا زیادہ مناسب رہے گا، یعنی
تجھے میرا بنائیں گی.
 
Top