یقین: ایک آزاد نظم (کبھی مایوس مت ہونا)

’یقین‘.
________________________
کبھی مایوس مت ہونا،
اندھیرا کتنا گہرا ہو،
سحر کی راہ میں حائل،
کبھی بھی ہو نہیں سکتا،
سویرا ہو کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
امیدوں کے سمندر میں،
تلاطم آتے رہتے ہیں،
سفینے ڈوبتے بھی ہیں،
سفر لیکن نہیں رکتا،
مسافر ٹوٹ جاتے ہیں،
مگر مانجھی نہیں تھکتا،
سفر طے ہو کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
خدا حاضر ہے ناظر بھی،
خدا ظاہر ہے منظر بھی،
وہی ہے حال سے واقف،
وہی سینوں کے اندر بھی،
مصیبت کے اندھیروں میں،
کبھی تم مانگ کر دیکھو،
تمہاری آنکھ کے آنسو،
یوں ہی ڈھلنے نہیں دے گا،
تمہاری آس کی گاگر،
کبھی گرنے نہیں دے گا،
ہوا کتنی مخالف ہو،
تمہیں جھکنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،
وہاں انصاف کی چکّی،
ذرا دھیرے سے چلتی ہے،
مگر چکّی کے پاٹوں میں،
بہت باریک پستا ہے،
تمہارے ایک کا بدلہ،
وہاں ستر سے زیادہ ہے،
نیت تلتی ہے پلڑوں میں،
عمل ناپے نہیں جاتے،
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہیں،
کبھی خالی نہیں آتے،
ذرا سی دیر لگتی ہے،
مگر وہ دے کے رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا،
دریدہ دامنوں کو وہ،
رفو کرتا ہے رحمت سے،
اگر کش کول ٹوٹا ہو،
تو وہ بھرتا ہے نعمت سے،
کبھی ایوبؑ کی خاطر،
زمیں چشمہ ابلتی ہے،
کہیں یونسؑ کے ہونٹوں پر،
اگر فریاد اٹھتی ہے،
کسی بنجر جزیرے پر،
نرم سی بیل اگتی ہے،
جو سایہ بھی ہے پانی بھی،
علاجِ نا توانی بھی،
کبھی مایوس مت ہونا،
تمہارے دل کی ٹیسوں کو،
یوں ہی دُکھنے نہیں دے گا،
تمنا کا دیا عاصمؔ
کبھی بجھنے نہیں دے گا،
کبھی وہ آس کا دریا،
کہیں رکنے نہیں دے گا،
کبھی مایوس مت ہونا،
جب اُس کے رحم کا ساگر،
چھلک کے جوش کھاتا ہے،
قہر ڈھاتا ہوا سورج،
یکا یک کانپ جاتا ہے،
ہوا اٹھتی ہے لہرا کر،
گھٹا سجدے میں گرتی ہے،
جہاں دھرتی ترستی ہے،
وہیں رحمت برستی ہے،
ترستے ریگ زاروں پر،
ابر بہہ کے ہی رہتا ہے،
نظر وہ اٹھ کے رہتی ہے،
کرم ہو کے ہی رہتا ہے،
امیدوں کا چمکتا دن،
امر ہو کے ہی رہتا ہے،
کبھی مایوس مت ہونا۔۔۔۔۔۔‘


عاصمؔ شمس
21-Feb-15
 
Top