جاسم محمد
محفلین
یقین کیجیے بھارت واقعی بدل گیا ہے
25/05/2019 وسعت اللہ خان
سینتالیس کی تقسیم اور انیس سو ستتر میں ایمرجنسی کے ردِعمل میں اندراگاندھی کی ہار کے بعد سے بھارت کی تہتر برس کی تاریخ میں دو ہزار انیس تیسرے سب سے بڑے اہم موڑ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔اور اب بھارت جو موڑ مڑا ہے وہ کتنا لمبا ہے۔ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔
دو ہزار انیس میں بھارت سیکولر ازم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر اکثریتی مذہبی طبقے کی قوم پرست جمہوری آمریت کے راستے پر مضبوطی سے چل پڑا ہے۔یہ بات دو ہزار چودہ میں بھی کہی جا سکتی تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے کم و بیش اتنی ہی بڑی فتح حاصل کی تھی جو دو روز پہلے حاصل ہوئی۔مگر دو ہزار چودہ میں خود بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی کہ وہ خالص نظریے کی بنیاد پر اتنی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر سکتی ہے لہذا اس نے اپنے اصل نظریے کو گودام میں رکھا اور شو روم پر ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کی پروڈکٹ رکھ دی تاکہ یہ ٹیسٹ کیا جا سکے کہ کتنے ووٹر بی جے پی کے اصل سنگھی نظریے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں۔
گذرے پانچ برسوں میں بی جے پی نے ریاستی اداروں ، سرمایہ داروں اور میڈیا ہاؤسز پر رفتہ رفتہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔اس کے بعد پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے نظریاتی پتے کھولنے شروع کیے۔یہ بات شروع سے طے تھی کہ اگر اقتصادی وعدے پورے نہ ہونے پر ووٹ بینک نے سوال اٹھانے شروع کیے تو پھر آخری ڈیڑھ برس میں ووٹر کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر تفریق اور ہندو قوم پرستی کی نشاۃ ثانیہ کا کارڈ نکالا جائے گا۔یہ کارڈ نہ صرف نکلا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ اس دن کے لیے زمین کی تیاری اب سے نہیں چورانوے برس سے ہو رہی تھی۔
انگریزی کے سب سے معروف ماہرِ لسانیات اور پہلی مربوط ڈکشنری کے خالق ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے سات اپریل سترہ سو پچھتر کو فرمایا تھا ’’ قوم پرستی غنڈوں کی آخری پناہ گاہ ہے ’’۔ یہ مقولہ کس قدر عملی ہے۔اس کا مظاہرہ بیسویں صدی میں ہم نے انیس سو بائیس میں فاشسٹ مسولینی کی انتخابی کامیابی اور انیس سو تینتیس میں نازی ہٹلر کی جرمن عام انتخابات میں کامیابی کی شکل میں دیکھا۔جنوبی ایشیا میں اس آئیڈیالوجی کی کھلم کھلا وارث انیس سو پچیس سے جن سنگھ چلی آ رہی ہے۔
لیکن لعن طعن یا نکتہ چینی سے دل کی بھڑاس نکل سکتی ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اگر آپ مسولینی ، ہٹلر اور جن سنگھ کے پہلے پرمکھ ہیڈگوار سے لے کر آج تک کی جن سنگھی تاریخ دیکھیں تو تینوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دے گی۔ نظریے سے وفاداری اور مایوس ہوئے بغیر انتھک محنت۔
مسولینی نے جب انیس سو بائیس میں اقتدار حاصل کیا تو اٹھائیس اپریل انیس سو پینتالیس میں سرِعام پھانسی ہونے تک چین سے نہیں بیٹھا۔ہٹلر نے انیس سو بیس کے عشرے میں ہونے والے علاقائی جرمن انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی مگر کبھی دل نہیں ہارا۔
جن سنگھ نے بھارت کی آزادی سے پہلے اور بعد کے دو عشروں تک کوئی عامل سیاسی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف اپنی قوم پرست ساکھ بنانے، پورے ملک میں تنظیم سازی اور نچلی سطح تک شاخیں کھولنے اور قبائلی سماج سے برہمن سماج تک ہر طبقے میں تعلیم و فلاح کے نام پر کام کرنے کے نام پر ایک مضبوط وقف کیڈر تشکیل دینے میں پورا وقت صرف کیا۔
جن سنگھ اس اعتبار سے مسولینی اور ہٹلر سے زیادہ بہتر اور سخت جان رہی کہ اس نے کبھی براہِ راست ٹکر لے کر خود کو برباد کر دینے والی مہم جوئی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔بلکہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہوئے انتہائی صبر کے ساتھ دھیرے دھیرے خود کو ذات پات سے اٹے بھارتی سماج کی جڑوں میں اتارا۔
ہمیں پہلی بھرپور جن سنگھی سیاسی سرگرمی انیس سو پچھتر کے ایمرجنسی دور میں نظر آتی ہے۔جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پوری حزبِ اختلاف کو جیل میں ڈال دیا۔ مگر جو لوگ اچھے چال چلن کی ضمانت پر رہا ہوئے ان میں جن سنگھی رہنما بھی تھے۔مگر جب انیس سو ستتر کے انتخابات کے لیے اندرا گاندھی کے خلاف جنتا پارٹی کا اتحاد بنا تو جن سنگھ اس اتحاد میں سب سے فعال تھی۔اندرا گاندھی کو شکست ہوئی اور جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی مرار جی ڈیسائی کی جنتا حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔مگر یہ حکومت تیتر بٹیر کے اتحاد کے سبب تین برس میں ہی ڈھ گئی اور انیس سو اسی کے انتخابات میں ووٹر فولادی خاتون اندرا گاندھی کو معاف کر کے دوبارہ لے آئے۔
انتخابات کے بعد جنتا پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی مگر جن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ اب خود کو پہلے کی طرح قومی سیاست سے الگ تھلگ نہیں رکھنا۔ لہذا اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور کے ایم ملکانی جیسے گرم و سرد چشیدہ گرگانِ باران دیدہ کی قیادت میں جن سنگھ کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی۔
انیس سو چوراسی کے انتخابات میں بی جے پی کو پانچ سو بیالیس کے لوک سبھا ایوان میں صرف دو نشستیں ملیں۔فیصلہ ہوا کہ کوئی ایسا مسئلہ تلاش کیا جائے جو ووٹروں کو بیچا جا سکے۔چنانچہ بابری مسجد کا شاخسانہ جو انیس سو انچاس سے سرد خانے میں پڑا تھا گودام سے نکال کے زندہ کر دیا گیا۔
چنانچہ انیس سو نواسی کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نشستیں دو سے بڑھ کر پچاسی، انیس سو اکیانوے میں ایک سو بیس ، انیس سو چھیانوے میں ایک سو اکسٹھ ، انیس سو اٹھانوے اور پھر ننانوے کے انتخابات میں ایک سو بیاسی تک پہنچ گئیں۔
دوہزار چار میں چار سالہ واجپائی حکومت کے باوجود بی جے پی کو ایک سو اڑتیس اور دو ہزار نو میں ایک سو سولہ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے مایوس ہونے کے بجائے بابری مسجد کے استعمال شدہ کارتوس کو واپس گودام میں رکھ دیا اور ترقی ، کرپشن کے خلاف جہاد اور گڈ گورننس کو مارکیٹ کرنے کی نئی حکمتِ عملی اختیار کی۔پرانے چہروں کے بجائے فاتح گجرات نریندر مودی کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔جن سنگھ کو پیچھے اور مودی کو بطور پوسٹر بوائے آگے رکھا اور یہ خواب بیچا کہ جیسے گجرات کو ترقی ملی ویسی ہی کرپشن فری اور تیز رفتار حکومت باقی بھارت کو بھی مل سکتی ہے جہاں صرف اور صرف اچھے دن ہوں گے۔
اس پیغام کو نوجوان اور شہری ووٹرز میں مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا گیا۔زمین پر تربیت یافتہ لاکھوں جن سنگھی رضاکار متحرک ہو گئے۔کانگریس سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے کوئی متبادل حکمتِ عملی یا وسیع تر اتحاد بنانے پر غور کرنے کے بجائے سارا وقت یہ سمجھنے میں ہی گذار دیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔چنانچہ دو ہزار چودہ کے نتائج مودی لہر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔
دو ہزار سترہ میں جب اترپردیش کے صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو اس کہانی کی حقیقت بھی کھل گئی کہ ریاست کی پندرہ فیصد مسلمان اقلیت اور دلتوں کے ووٹ بینک کی حمایت کے بغیر یو پی فتح نہیں ہو سکتا۔بی جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا مگر دو تہائی اکثریت حاصل کی۔پھر یوگی ادتیا ناتھ کو وزیرِ اعلی بنانے کے فیصلے نے واضح کر دیا کہ اب سنگھ پریوار اتنا پر اعتماد ہے کہ وہ کھل کے نظریاتی تجربے کر سکتا ہے۔اس سوچ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت بھوپال کی سیٹ سے دہشت گردی کے مقدمات کی ملزمہ سادھوی پرگیا ٹھاکر کی جیت ہے۔سادھوی نے کسی للو پنجو کو نہیں بلکہ کانگریس کے انتہائی تجربے کار رہنما دگ وجے سنگھ کو شکست دی۔جب بی جے پی نے سادھوی کو ٹکٹ دیا تو مودی نے کہا کہ سادھوی کی جیت ان سب کے منہ پر طمانچہ ہو گی جو ہندوؤں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔اور پھر یہ طمانچہ بہت زور سے مارا گیا۔
پرسوں کے نتائج کے مطابق یوپی سے کانگریس صرف ایک سیٹ نکال سکی۔وہ بھی سونیا گاندھی کی۔ راہول گاندھی یوپی میں اپنی آبائی سیٹ امیٹھی ہار گئے۔ انھیں اگر جتایا بھی تو ہزاروں کلو میٹر پرے کیرالہ کے اس حلقے نے جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے۔
مسلمانوں کی تنہائی اس قدر مکمل ہو چکی ہے کہ اور جماعتوں کو تو چھوڑئیے خود بی جے پی نے جن چھ مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے وہ سب کے سب ہار گئے۔نئی لوک سبھا میں مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر صرف بائیس مسلمان پہنچے ہیں۔جب کہ انیس سو اسی کی لوک سبھا میں اناسی مسلمان تھے۔
رہی بات کیمونسٹوں کی توان کا اس انتخاب میں سوائے کیرالہ کی ایک سیٹ کے پورے بھارت میں صفایا ہوگیا۔مغربی بنگال جہاں کیمونسٹ پارٹی نے چونتیس برس حکومت کی۔آج اس کا ایک بھی رکن بنگال سے نہیں جیت پایا۔
واقعی بھارت بدل گیا ہے۔مودی کا کہنا درست ہے کہ اکیسویں صدی کے بھارت کو بیسویں صدی کی عینک لگا کے دیکھنے والے ’’ انٹل کچول ’’ کچھ سبق سیکھیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
25/05/2019 وسعت اللہ خان
سینتالیس کی تقسیم اور انیس سو ستتر میں ایمرجنسی کے ردِعمل میں اندراگاندھی کی ہار کے بعد سے بھارت کی تہتر برس کی تاریخ میں دو ہزار انیس تیسرے سب سے بڑے اہم موڑ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔اور اب بھارت جو موڑ مڑا ہے وہ کتنا لمبا ہے۔ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔
دو ہزار انیس میں بھارت سیکولر ازم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر اکثریتی مذہبی طبقے کی قوم پرست جمہوری آمریت کے راستے پر مضبوطی سے چل پڑا ہے۔یہ بات دو ہزار چودہ میں بھی کہی جا سکتی تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے کم و بیش اتنی ہی بڑی فتح حاصل کی تھی جو دو روز پہلے حاصل ہوئی۔مگر دو ہزار چودہ میں خود بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی کہ وہ خالص نظریے کی بنیاد پر اتنی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر سکتی ہے لہذا اس نے اپنے اصل نظریے کو گودام میں رکھا اور شو روم پر ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کی پروڈکٹ رکھ دی تاکہ یہ ٹیسٹ کیا جا سکے کہ کتنے ووٹر بی جے پی کے اصل سنگھی نظریے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں۔
گذرے پانچ برسوں میں بی جے پی نے ریاستی اداروں ، سرمایہ داروں اور میڈیا ہاؤسز پر رفتہ رفتہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔اس کے بعد پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے نظریاتی پتے کھولنے شروع کیے۔یہ بات شروع سے طے تھی کہ اگر اقتصادی وعدے پورے نہ ہونے پر ووٹ بینک نے سوال اٹھانے شروع کیے تو پھر آخری ڈیڑھ برس میں ووٹر کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر تفریق اور ہندو قوم پرستی کی نشاۃ ثانیہ کا کارڈ نکالا جائے گا۔یہ کارڈ نہ صرف نکلا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ اس دن کے لیے زمین کی تیاری اب سے نہیں چورانوے برس سے ہو رہی تھی۔
انگریزی کے سب سے معروف ماہرِ لسانیات اور پہلی مربوط ڈکشنری کے خالق ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے سات اپریل سترہ سو پچھتر کو فرمایا تھا ’’ قوم پرستی غنڈوں کی آخری پناہ گاہ ہے ’’۔ یہ مقولہ کس قدر عملی ہے۔اس کا مظاہرہ بیسویں صدی میں ہم نے انیس سو بائیس میں فاشسٹ مسولینی کی انتخابی کامیابی اور انیس سو تینتیس میں نازی ہٹلر کی جرمن عام انتخابات میں کامیابی کی شکل میں دیکھا۔جنوبی ایشیا میں اس آئیڈیالوجی کی کھلم کھلا وارث انیس سو پچیس سے جن سنگھ چلی آ رہی ہے۔
لیکن لعن طعن یا نکتہ چینی سے دل کی بھڑاس نکل سکتی ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اگر آپ مسولینی ، ہٹلر اور جن سنگھ کے پہلے پرمکھ ہیڈگوار سے لے کر آج تک کی جن سنگھی تاریخ دیکھیں تو تینوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دے گی۔ نظریے سے وفاداری اور مایوس ہوئے بغیر انتھک محنت۔
مسولینی نے جب انیس سو بائیس میں اقتدار حاصل کیا تو اٹھائیس اپریل انیس سو پینتالیس میں سرِعام پھانسی ہونے تک چین سے نہیں بیٹھا۔ہٹلر نے انیس سو بیس کے عشرے میں ہونے والے علاقائی جرمن انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی مگر کبھی دل نہیں ہارا۔
جن سنگھ نے بھارت کی آزادی سے پہلے اور بعد کے دو عشروں تک کوئی عامل سیاسی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف اپنی قوم پرست ساکھ بنانے، پورے ملک میں تنظیم سازی اور نچلی سطح تک شاخیں کھولنے اور قبائلی سماج سے برہمن سماج تک ہر طبقے میں تعلیم و فلاح کے نام پر کام کرنے کے نام پر ایک مضبوط وقف کیڈر تشکیل دینے میں پورا وقت صرف کیا۔
جن سنگھ اس اعتبار سے مسولینی اور ہٹلر سے زیادہ بہتر اور سخت جان رہی کہ اس نے کبھی براہِ راست ٹکر لے کر خود کو برباد کر دینے والی مہم جوئی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔بلکہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہوئے انتہائی صبر کے ساتھ دھیرے دھیرے خود کو ذات پات سے اٹے بھارتی سماج کی جڑوں میں اتارا۔
ہمیں پہلی بھرپور جن سنگھی سیاسی سرگرمی انیس سو پچھتر کے ایمرجنسی دور میں نظر آتی ہے۔جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پوری حزبِ اختلاف کو جیل میں ڈال دیا۔ مگر جو لوگ اچھے چال چلن کی ضمانت پر رہا ہوئے ان میں جن سنگھی رہنما بھی تھے۔مگر جب انیس سو ستتر کے انتخابات کے لیے اندرا گاندھی کے خلاف جنتا پارٹی کا اتحاد بنا تو جن سنگھ اس اتحاد میں سب سے فعال تھی۔اندرا گاندھی کو شکست ہوئی اور جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی مرار جی ڈیسائی کی جنتا حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔مگر یہ حکومت تیتر بٹیر کے اتحاد کے سبب تین برس میں ہی ڈھ گئی اور انیس سو اسی کے انتخابات میں ووٹر فولادی خاتون اندرا گاندھی کو معاف کر کے دوبارہ لے آئے۔
انتخابات کے بعد جنتا پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی مگر جن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ اب خود کو پہلے کی طرح قومی سیاست سے الگ تھلگ نہیں رکھنا۔ لہذا اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور کے ایم ملکانی جیسے گرم و سرد چشیدہ گرگانِ باران دیدہ کی قیادت میں جن سنگھ کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی۔
انیس سو چوراسی کے انتخابات میں بی جے پی کو پانچ سو بیالیس کے لوک سبھا ایوان میں صرف دو نشستیں ملیں۔فیصلہ ہوا کہ کوئی ایسا مسئلہ تلاش کیا جائے جو ووٹروں کو بیچا جا سکے۔چنانچہ بابری مسجد کا شاخسانہ جو انیس سو انچاس سے سرد خانے میں پڑا تھا گودام سے نکال کے زندہ کر دیا گیا۔
چنانچہ انیس سو نواسی کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نشستیں دو سے بڑھ کر پچاسی، انیس سو اکیانوے میں ایک سو بیس ، انیس سو چھیانوے میں ایک سو اکسٹھ ، انیس سو اٹھانوے اور پھر ننانوے کے انتخابات میں ایک سو بیاسی تک پہنچ گئیں۔
دوہزار چار میں چار سالہ واجپائی حکومت کے باوجود بی جے پی کو ایک سو اڑتیس اور دو ہزار نو میں ایک سو سولہ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے مایوس ہونے کے بجائے بابری مسجد کے استعمال شدہ کارتوس کو واپس گودام میں رکھ دیا اور ترقی ، کرپشن کے خلاف جہاد اور گڈ گورننس کو مارکیٹ کرنے کی نئی حکمتِ عملی اختیار کی۔پرانے چہروں کے بجائے فاتح گجرات نریندر مودی کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔جن سنگھ کو پیچھے اور مودی کو بطور پوسٹر بوائے آگے رکھا اور یہ خواب بیچا کہ جیسے گجرات کو ترقی ملی ویسی ہی کرپشن فری اور تیز رفتار حکومت باقی بھارت کو بھی مل سکتی ہے جہاں صرف اور صرف اچھے دن ہوں گے۔
اس پیغام کو نوجوان اور شہری ووٹرز میں مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا گیا۔زمین پر تربیت یافتہ لاکھوں جن سنگھی رضاکار متحرک ہو گئے۔کانگریس سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے کوئی متبادل حکمتِ عملی یا وسیع تر اتحاد بنانے پر غور کرنے کے بجائے سارا وقت یہ سمجھنے میں ہی گذار دیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔چنانچہ دو ہزار چودہ کے نتائج مودی لہر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔
دو ہزار سترہ میں جب اترپردیش کے صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو اس کہانی کی حقیقت بھی کھل گئی کہ ریاست کی پندرہ فیصد مسلمان اقلیت اور دلتوں کے ووٹ بینک کی حمایت کے بغیر یو پی فتح نہیں ہو سکتا۔بی جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا مگر دو تہائی اکثریت حاصل کی۔پھر یوگی ادتیا ناتھ کو وزیرِ اعلی بنانے کے فیصلے نے واضح کر دیا کہ اب سنگھ پریوار اتنا پر اعتماد ہے کہ وہ کھل کے نظریاتی تجربے کر سکتا ہے۔اس سوچ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت بھوپال کی سیٹ سے دہشت گردی کے مقدمات کی ملزمہ سادھوی پرگیا ٹھاکر کی جیت ہے۔سادھوی نے کسی للو پنجو کو نہیں بلکہ کانگریس کے انتہائی تجربے کار رہنما دگ وجے سنگھ کو شکست دی۔جب بی جے پی نے سادھوی کو ٹکٹ دیا تو مودی نے کہا کہ سادھوی کی جیت ان سب کے منہ پر طمانچہ ہو گی جو ہندوؤں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔اور پھر یہ طمانچہ بہت زور سے مارا گیا۔
پرسوں کے نتائج کے مطابق یوپی سے کانگریس صرف ایک سیٹ نکال سکی۔وہ بھی سونیا گاندھی کی۔ راہول گاندھی یوپی میں اپنی آبائی سیٹ امیٹھی ہار گئے۔ انھیں اگر جتایا بھی تو ہزاروں کلو میٹر پرے کیرالہ کے اس حلقے نے جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے۔
مسلمانوں کی تنہائی اس قدر مکمل ہو چکی ہے کہ اور جماعتوں کو تو چھوڑئیے خود بی جے پی نے جن چھ مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے وہ سب کے سب ہار گئے۔نئی لوک سبھا میں مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر صرف بائیس مسلمان پہنچے ہیں۔جب کہ انیس سو اسی کی لوک سبھا میں اناسی مسلمان تھے۔
رہی بات کیمونسٹوں کی توان کا اس انتخاب میں سوائے کیرالہ کی ایک سیٹ کے پورے بھارت میں صفایا ہوگیا۔مغربی بنگال جہاں کیمونسٹ پارٹی نے چونتیس برس حکومت کی۔آج اس کا ایک بھی رکن بنگال سے نہیں جیت پایا۔
واقعی بھارت بدل گیا ہے۔مودی کا کہنا درست ہے کہ اکیسویں صدی کے بھارت کو بیسویں صدی کی عینک لگا کے دیکھنے والے ’’ انٹل کچول ’’ کچھ سبق سیکھیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس