یقین کیجیے بھارت واقعی بدل گیا ہے

جاسم محمد

محفلین
یقین کیجیے بھارت واقعی بدل گیا ہے
25/05/2019 وسعت اللہ خان


سینتالیس کی تقسیم اور انیس سو ستتر میں ایمرجنسی کے ردِعمل میں اندراگاندھی کی ہار کے بعد سے بھارت کی تہتر برس کی تاریخ میں دو ہزار انیس تیسرے سب سے بڑے اہم موڑ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔اور اب بھارت جو موڑ مڑا ہے وہ کتنا لمبا ہے۔ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔

دو ہزار انیس میں بھارت سیکولر ازم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر اکثریتی مذہبی طبقے کی قوم پرست جمہوری آمریت کے راستے پر مضبوطی سے چل پڑا ہے۔یہ بات دو ہزار چودہ میں بھی کہی جا سکتی تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے کم و بیش اتنی ہی بڑی فتح حاصل کی تھی جو دو روز پہلے حاصل ہوئی۔مگر دو ہزار چودہ میں خود بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی کہ وہ خالص نظریے کی بنیاد پر اتنی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر سکتی ہے لہذا اس نے اپنے اصل نظریے کو گودام میں رکھا اور شو روم پر ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کی پروڈکٹ رکھ دی تاکہ یہ ٹیسٹ کیا جا سکے کہ کتنے ووٹر بی جے پی کے اصل سنگھی نظریے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں۔

گذرے پانچ برسوں میں بی جے پی نے ریاستی اداروں ، سرمایہ داروں اور میڈیا ہاؤسز پر رفتہ رفتہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔اس کے بعد پارٹی نے آہستہ آہستہ اپنے نظریاتی پتے کھولنے شروع کیے۔یہ بات شروع سے طے تھی کہ اگر اقتصادی وعدے پورے نہ ہونے پر ووٹ بینک نے سوال اٹھانے شروع کیے تو پھر آخری ڈیڑھ برس میں ووٹر کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر تفریق اور ہندو قوم پرستی کی نشاۃ ثانیہ کا کارڈ نکالا جائے گا۔یہ کارڈ نہ صرف نکلا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ اس دن کے لیے زمین کی تیاری اب سے نہیں چورانوے برس سے ہو رہی تھی۔

انگریزی کے سب سے معروف ماہرِ لسانیات اور پہلی مربوط ڈکشنری کے خالق ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے سات اپریل سترہ سو پچھتر کو فرمایا تھا ’’ قوم پرستی غنڈوں کی آخری پناہ گاہ ہے ’’۔ یہ مقولہ کس قدر عملی ہے۔اس کا مظاہرہ بیسویں صدی میں ہم نے انیس سو بائیس میں فاشسٹ مسولینی کی انتخابی کامیابی اور انیس سو تینتیس میں نازی ہٹلر کی جرمن عام انتخابات میں کامیابی کی شکل میں دیکھا۔جنوبی ایشیا میں اس آئیڈیالوجی کی کھلم کھلا وارث انیس سو پچیس سے جن سنگھ چلی آ رہی ہے۔

لیکن لعن طعن یا نکتہ چینی سے دل کی بھڑاس نکل سکتی ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اگر آپ مسولینی ، ہٹلر اور جن سنگھ کے پہلے پرمکھ ہیڈگوار سے لے کر آج تک کی جن سنگھی تاریخ دیکھیں تو تینوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دے گی۔ نظریے سے وفاداری اور مایوس ہوئے بغیر انتھک محنت۔

مسولینی نے جب انیس سو بائیس میں اقتدار حاصل کیا تو اٹھائیس اپریل انیس سو پینتالیس میں سرِعام پھانسی ہونے تک چین سے نہیں بیٹھا۔ہٹلر نے انیس سو بیس کے عشرے میں ہونے والے علاقائی جرمن انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی مگر کبھی دل نہیں ہارا۔

جن سنگھ نے بھارت کی آزادی سے پہلے اور بعد کے دو عشروں تک کوئی عامل سیاسی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف اپنی قوم پرست ساکھ بنانے، پورے ملک میں تنظیم سازی اور نچلی سطح تک شاخیں کھولنے اور قبائلی سماج سے برہمن سماج تک ہر طبقے میں تعلیم و فلاح کے نام پر کام کرنے کے نام پر ایک مضبوط وقف کیڈر تشکیل دینے میں پورا وقت صرف کیا۔

جن سنگھ اس اعتبار سے مسولینی اور ہٹلر سے زیادہ بہتر اور سخت جان رہی کہ اس نے کبھی براہِ راست ٹکر لے کر خود کو برباد کر دینے والی مہم جوئی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔بلکہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہوئے انتہائی صبر کے ساتھ دھیرے دھیرے خود کو ذات پات سے اٹے بھارتی سماج کی جڑوں میں اتارا۔

ہمیں پہلی بھرپور جن سنگھی سیاسی سرگرمی انیس سو پچھتر کے ایمرجنسی دور میں نظر آتی ہے۔جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پوری حزبِ اختلاف کو جیل میں ڈال دیا۔ مگر جو لوگ اچھے چال چلن کی ضمانت پر رہا ہوئے ان میں جن سنگھی رہنما بھی تھے۔مگر جب انیس سو ستتر کے انتخابات کے لیے اندرا گاندھی کے خلاف جنتا پارٹی کا اتحاد بنا تو جن سنگھ اس اتحاد میں سب سے فعال تھی۔اندرا گاندھی کو شکست ہوئی اور جن سنگھ کے اٹل بہاری واجپائی مرار جی ڈیسائی کی جنتا حکومت میں وزیرِ خارجہ بنے۔مگر یہ حکومت تیتر بٹیر کے اتحاد کے سبب تین برس میں ہی ڈھ گئی اور انیس سو اسی کے انتخابات میں ووٹر فولادی خاتون اندرا گاندھی کو معاف کر کے دوبارہ لے آئے۔

انتخابات کے بعد جنتا پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی مگر جن سنگھ نے فیصلہ کیا کہ اب خود کو پہلے کی طرح قومی سیاست سے الگ تھلگ نہیں رکھنا۔ لہذا اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور کے ایم ملکانی جیسے گرم و سرد چشیدہ گرگانِ باران دیدہ کی قیادت میں جن سنگھ کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی۔

انیس سو چوراسی کے انتخابات میں بی جے پی کو پانچ سو بیالیس کے لوک سبھا ایوان میں صرف دو نشستیں ملیں۔فیصلہ ہوا کہ کوئی ایسا مسئلہ تلاش کیا جائے جو ووٹروں کو بیچا جا سکے۔چنانچہ بابری مسجد کا شاخسانہ جو انیس سو انچاس سے سرد خانے میں پڑا تھا گودام سے نکال کے زندہ کر دیا گیا۔

چنانچہ انیس سو نواسی کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی نشستیں دو سے بڑھ کر پچاسی، انیس سو اکیانوے میں ایک سو بیس ، انیس سو چھیانوے میں ایک سو اکسٹھ ، انیس سو اٹھانوے اور پھر ننانوے کے انتخابات میں ایک سو بیاسی تک پہنچ گئیں۔

دوہزار چار میں چار سالہ واجپائی حکومت کے باوجود بی جے پی کو ایک سو اڑتیس اور دو ہزار نو میں ایک سو سولہ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے مایوس ہونے کے بجائے بابری مسجد کے استعمال شدہ کارتوس کو واپس گودام میں رکھ دیا اور ترقی ، کرپشن کے خلاف جہاد اور گڈ گورننس کو مارکیٹ کرنے کی نئی حکمتِ عملی اختیار کی۔پرانے چہروں کے بجائے فاتح گجرات نریندر مودی کو اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔جن سنگھ کو پیچھے اور مودی کو بطور پوسٹر بوائے آگے رکھا اور یہ خواب بیچا کہ جیسے گجرات کو ترقی ملی ویسی ہی کرپشن فری اور تیز رفتار حکومت باقی بھارت کو بھی مل سکتی ہے جہاں صرف اور صرف اچھے دن ہوں گے۔

اس پیغام کو نوجوان اور شہری ووٹرز میں مقبول بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا گیا۔زمین پر تربیت یافتہ لاکھوں جن سنگھی رضاکار متحرک ہو گئے۔کانگریس سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے کوئی متبادل حکمتِ عملی یا وسیع تر اتحاد بنانے پر غور کرنے کے بجائے سارا وقت یہ سمجھنے میں ہی گذار دیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔چنانچہ دو ہزار چودہ کے نتائج مودی لہر اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔

دو ہزار سترہ میں جب اترپردیش کے صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو اس کہانی کی حقیقت بھی کھل گئی کہ ریاست کی پندرہ فیصد مسلمان اقلیت اور دلتوں کے ووٹ بینک کی حمایت کے بغیر یو پی فتح نہیں ہو سکتا۔بی جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا مگر دو تہائی اکثریت حاصل کی۔پھر یوگی ادتیا ناتھ کو وزیرِ اعلی بنانے کے فیصلے نے واضح کر دیا کہ اب سنگھ پریوار اتنا پر اعتماد ہے کہ وہ کھل کے نظریاتی تجربے کر سکتا ہے۔اس سوچ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت بھوپال کی سیٹ سے دہشت گردی کے مقدمات کی ملزمہ سادھوی پرگیا ٹھاکر کی جیت ہے۔سادھوی نے کسی للو پنجو کو نہیں بلکہ کانگریس کے انتہائی تجربے کار رہنما دگ وجے سنگھ کو شکست دی۔جب بی جے پی نے سادھوی کو ٹکٹ دیا تو مودی نے کہا کہ سادھوی کی جیت ان سب کے منہ پر طمانچہ ہو گی جو ہندوؤں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔اور پھر یہ طمانچہ بہت زور سے مارا گیا۔

پرسوں کے نتائج کے مطابق یوپی سے کانگریس صرف ایک سیٹ نکال سکی۔وہ بھی سونیا گاندھی کی۔ راہول گاندھی یوپی میں اپنی آبائی سیٹ امیٹھی ہار گئے۔ انھیں اگر جتایا بھی تو ہزاروں کلو میٹر پرے کیرالہ کے اس حلقے نے جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے۔

مسلمانوں کی تنہائی اس قدر مکمل ہو چکی ہے کہ اور جماعتوں کو تو چھوڑئیے خود بی جے پی نے جن چھ مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیے وہ سب کے سب ہار گئے۔نئی لوک سبھا میں مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر صرف بائیس مسلمان پہنچے ہیں۔جب کہ انیس سو اسی کی لوک سبھا میں اناسی مسلمان تھے۔

رہی بات کیمونسٹوں کی توان کا اس انتخاب میں سوائے کیرالہ کی ایک سیٹ کے پورے بھارت میں صفایا ہوگیا۔مغربی بنگال جہاں کیمونسٹ پارٹی نے چونتیس برس حکومت کی۔آج اس کا ایک بھی رکن بنگال سے نہیں جیت پایا۔

واقعی بھارت بدل گیا ہے۔مودی کا کہنا درست ہے کہ اکیسویں صدی کے بھارت کو بیسویں صدی کی عینک لگا کے دیکھنے والے ’’ انٹل کچول ’’ کچھ سبق سیکھیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
 

جاسم محمد

محفلین
دو ہزار انیس میں بھارت سیکولر ازم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکمل طور پر اکثریتی مذہبی طبقے کی قوم پرست جمہوری آمریت کے راستے پر مضبوطی سے چل پڑا ہے۔
شکریہ جاسم محمد بھائی!
ایک اچھا تجزیہ پڑھنے کو ملا۔
یہ تو میرے خیال میں پاکستان کیلئے بہت اچھی خبر ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت بھی سیکولرازم کی سخت مخالف ہے۔
ہو سکتا ہے یہی قوم پرست جمہوری آمریت بالآخر مسئلہ کشمیر حل کر دے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کالم میں ایک خلا ہے۔

جَن سَنگھ کی محنت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کا ذکر خوب کیا گیا ہے، ان کے نظریے پر بھی عمدہ بات ہوئی ہے، اور یہ سب درست بھی ہے۔ لیکن خان صاحب نے سارے کالم میں آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ذکر تک نہیں کیا۔ بھاج پا کو کامیابی صرف اپنی سیاست سے نہیں ملی، اس کے پیچھے آر ایس ایس کی کئی دہائیوں پر مشتمل "سخت محنت" ہے۔ جن سنگھ یا بی جے پی کا کونسا لیڈر ہے جو آر ایس ایس کیڈر سے نہیں آیا، جن سنگھ کے بانی شیام پرشاد مکھر جی اور واجپائی سے لے کر آڈوانی اورمودی تک سب آر ایس ایس کے سیوک رہے ہیں۔ جن سنگھ اور بھاج پا کو ہمیشہ سے ناگ پور سے کنٹرول کیا جاتا رہا ہے جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ ان "سیاسی" پارٹیوں کے صدرو آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر فائنل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ آر ایس ایس نے بہت سے موقعوں پر ملکی اور سیاسی حالات "ڈکٹیٹ" اور کنٹرول کیے ہیں۔ مثال کے طور پر اس صدی کے شروع میں ہونے والے بدنامِ زمانہ گجرات مسلم کش فسادات، جب واجپائی وزیر اعظم تھا اور مودی کو گجرات کی چیف منسٹری اور سیاسی کیرئیر سے ختم کرنے کو تیار تھا لیکن آر ایس ایس نے اس وقت آڈوانی اور مودی کو رکھا اور واجپائی کی قربانی کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر 2014ء کے الیکشنز سے پہلے مودی کو لا کر آڈوانی کو بھی قربان کر دیا گیا اور آڈوانی صاحب دیکھتے ہی رہ گئے۔

راشٹریہ سیوک سَنگھ اور درجنوں تنظمیوں پر مشتمل سَنگھ پریوار کا ذکر کیے بغیر بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ اور تاریخی کامیابیاں کیسے مکمل ہو سکتی ہیں!
 

محمد وارث

لائبریرین
جب وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پوری حزبِ اختلاف کو جیل میں ڈال دیا۔ مگر جو لوگ اچھے چال چلن کی ضمانت پر رہا ہوئے ان میں جن سنگھی رہنما بھی تھے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ اندرا گاندھی نے "اچھے چال چلن" کی بنا جن سنگھی رہنماؤں یعنی واجپائی اور آڈوانی کو ضمانت پر رہا کیا تھا بلکہ ان دونوں کو جس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اس میں ایک قانونی lacuna تھا جس کو ان لیڈروں نے استعمال کر کے باقاعدہ عدالتی نظام کے تحت ضمانت حاصل کی تھی۔ آڈوانی نے اپنی خود نوشت سوانح میں اپنی اور واجپائی کی گرفتاری، قانونی سقم اور ضمانت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کو ضمانت ملتے ہی اندرا گاندھی اینڈ کو نے اس قانونی سقم کو دور کر دیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وجاہت مسعود کا ناقابل اشاعت کالم
26/05/2019 وجاہت مسعود


بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات میں ہندو قوم پرستی کی علمبردار بھارتیہ جنتا پارٹی نے 303 نشستیں جیت لیں۔ بھارتی دستور کے مطابق حزب اختلاف کا درجہ پانے کے لئے 55 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 52 سیٹیں جیتنے والی کانگریس سرکاری طور پر حزب اختلاف کا درجہ بھی حاصل نہ کر سکی۔ زعفرانی لبادوں میں ملبوس، ماتھے پر تلک سجائے، کنول کی مذہبی علامت پر ووٹ کی مہر لگانے والے بھارتی ووٹر خوش ہیں، راہل گاندھی نے انتخابی نتیجہ تسلیم کر لیا، ہمارے وزیر اعظم نے نریندر مودی کو مبارک باد کا پیغام بھیج دیا تو ہمیں شہر کے اندیشے میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت کے مردے بھارت میں گڑیں گے۔

تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم بھارت کے سیاسی منظر اور سماجی خدوخال سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ بھارت ہمارا مشرقی ہمسایہ ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان اور بھارت نے برطانوی ہندوستان کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم نے دونوں ملکوں کی تعمیراتی ساخت کی بنیاد رکھی۔ قائد اعظم نے دونوں ملکوں میں امریکا اور کینیڈا جیسے تعلقات کا خواب دیکھا تھا لیکن آزادی کی سات دہائیوں میں ہم مسلسل دست و گریباں رہے ہیں۔ پاکستان 97 فیصد مسلم اکثریت کے باوجود ریاست اور مذہب میں تعلق کا سوال حل نہیں کر سکا۔ ادھر معیشت کی تیز رفتار ترقی کے باوجود بھارتی سیاست پر اکثریتی فرقے کی چھاپ گہری ہو رہی ہے۔ 23 مئی کی شام بھارت کی سڑکوں پر ڈھول بجاتے بی جے پی کے کارکنوں کو دیکھ کر بار بار خیال آتا رہا کہ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ کوئی بھارتی مسلمان بی جے پی کے جشن فتح میں کیسے شریک ہو گا؟ کیا ہندوتوا کے پرجوش نعروں کو سنتے ہوئے لکھنو کے کسی پاجامہ پوش مسلمان پر وہی بے بسی طاری نہیں ہو گی جو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اس ہندو رکن نے محسوس کی ہو گی جسے پچھلے مہینے کم سنی کی شادی کے بارے میں قانون سازی کی تجویز دینے پر ایک باریش وزیر نے غیر مسلم ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ بھارت کے انتخابات جمہوریت کے نام پر جمہوری اصولوں کی نفی کا پیغام لائے ہیں۔ ٹھہریے، میں اپنے داغ ہائے سینہ کی خبر لے لوں۔

پاکستان میں پہلے عام انتخابات آزادی کے 23 برس بعد دسمبر 1970ءمیں منعقد ہوئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ 1970 کے انتخابات شفاف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شفاف الیکشن وہ شجر ممنوعہ ہے جس کا میوہ چکھنے کی ہمیں کبھی اجازت نہیں ملی۔ مارچ 1969 میں یحییٰ خان نے عملی طور پر ایوب خان سے اقتدار چھینا تو کسی بھی غیرجمہوری حکمران کی طرح اس کا بنیادی مقصد اپنے اقتدار کی ممکنہ حد تک طوالت تھا۔ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ نہ ماننے کی پاداش میں پاکستان دولخت ہوا۔ یحییٰ خان اپنی صدارت کی ضمانت مانگتا تھا۔ اکثریتی جماعت نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو اس نے بندوق کی نالی سے اپنا راستہ نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان ووٹ کی پرچی سے نہیں، بندوق کی نالی سے دو ٹکڑے ہوا۔

یہ تذکرہ تو اس کہانی کی تمہید میں چلا آیا جس کا خاکہ جنرل شیر علی خان پٹودی نے تیار کیا تھا۔ شیر علی خان گہرے مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور نہتے عوام پر مسلح افواج کی بالادستی کے نظریہ دان تھے۔ انہوں نے لیاقت علی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ہی جنرل فرینک میسروی کے حکم پر لیفٹنٹ کرنل (تب) یحییٰ خان کی معاونت سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں پاکستان کی فوج کو جغرافیائی سرحدوں کے علاوہ نظریاتی تشخص کا محافظ بھی قرار دیا۔ بیس برس بعد یحییٰ خان حکمران بنے تو شیر علی پٹودی کے نظریات سے خوب واقف تھے۔ چنانچہ انہیں ملائیشیا کی سفارت سے واپس بلا کر اطلاعات کی وزارت سونپی گئی تاکہ آئندہ انتخابات میں پاکستان کی نظریاتی انجنیئرنگ کی جائے۔

شیر علی پٹودی نے ایک سہ رخا خاکہ بنایا۔ میجر جنرل غلام عمر کی سربراہی میں نیشنل سیکورٹی کونسل بنائی گئی جس کا کام مذہبی جماعتوں کی دامے درمے سخنے مدد کرنا تھا۔ جنرل غلام عمر اسد عمر کے والد تھے اور انہوں نے بھٹو حکومت کے دوران اس رقم سے باقی بچے ہوئے سات لاکھ روپے حکومت کو واپس کئے تھے جو 70 کے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں میں بانٹے گئے تھے۔ دوسری طرف آغا محمد علی اور این اے رضوی کی قیادت میں خفیہ ادارے عوامی تائید کی حامل جماعتوں کے خلاف سرگرم تھے۔ تیسری طرف خود شیر علی پٹودی کی وزارت اطلاعات تھی جس نے پاکستان کے لوگوں میں ایک لکیر کھینچ دی۔ ایک گروہ اسلام پسند کہلایا اور دوسرے کو سیکولر سرخے قرار دیا گیا۔ پاکستان قومی اتحاد، ضیا آمریت اور آئی جے آئی سے ہوتی ہوئی یہ لکیر آج تک موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ناپسندیدہ گروہوں کو لبرل غدار کہا جاتا ہے۔

یہ پس منظر بیان کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ بھارت میں بی جے پی کی کامیابی پر پاکستان میں کچھ حلقے پھولے نہیں سما رہے۔ انہیں گمان ہے کہ بھارت کی سیکولر سیاست کی ناکامی سے ان کی نظریاتی اساس کا اثبات ہوتا ہے۔ درس خودی دینے والوں کو بھول گئی اقبال کی یاد…. کشمیر کے مسلمانوں کے لئے دفتر سیاہ کرنے والوں کو خیال نہیں آ رہا کہ بھارت میں زعفرانی سیاست کی جیت سے بھارتی مسلمانوں کی دستار کھل کے گلے میں آ پڑی ہے۔ جموں کشمیر میں بھارت کی فوج سات لاکھ ہے مگر بھارت کے مسلمانوں پر 90 کروڑ ہندو آبادی کا اکثریتی استبداد مسلط ہو گیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مخالف سوچ بھارت میں جمہوری رواداری کی شکست سے توانائی کشید کرنا چاہتی ہے۔ بنیادی قضیہ یہ ہے کہ انسانیت کا نصب العین، مساوات، رواداری اور معاشی ترقی ہے یا انسانوں میں مذہب، ذات پات اور اکثریتی شناخت کے بل پر دیواریں اٹھانا؟

جمہوریت کا بنیادی اصول ووٹوں کی گنتی نہیں، بلکہ فیصلہ سازی اور اختیار میں تمام شہریوں کی بلا امتیاز شرکت ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ذات پات کی قائل ہے، ہندو مت کو دوسرے عقیدوں سے برتر سمجھتی ہے اور طاقت کے ذریعے معاملات طے کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ نریندر مودی معیشت میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ بے روز گاری، صنعتی پیداوار، زرعی آمدنی کے اشاریے خراب ہوئے ہیں لیکن بھارت چھپن انچ کی چھاتی کے سحر میں گرفتار ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں ایک ایسی دنیا دیکھ رہے ہیں جہاں امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت میں نریندر مودی، روس میں ولادیمیر پوٹن اور ترکی میں طیب اردوان برسراقتدار ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس کیا راستہ بچا ہے؟ ہمارے پاس انسانیت کا مشترکہ ورثہ یعنی جمہوریت کا امکان موجود ہے۔ کیا ہم پاکستان میں جمہوری مساوات، مذہبی رواداری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے پیداواری معیشت کا وہ نمونہ تخلیق کر سکتے ہیں جسے دنیا میں اسی طرح مثال بنا کر پیش کیا جا سکے جیسے چند ماہ قبل نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا نام پاکستان میں گونج رہا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم اکیسویں صدی میں ایک ایسی دنیا دیکھ رہے ہیں جہاں امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت میں نریندر مودی، روس میں ولادیمیر پوٹن اور ترکی میں طیب اردوان برسراقتدار ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس کیا راستہ بچا ہے؟ ہمارے پاس انسانیت کا مشترکہ ورثہ یعنی جمہوریت کا امکان موجود ہے۔
مودی، ٹرمپ، پوٹن، عمران ، نتانیاہو سب کے سب الیکشن لڑ کر اقتدار میں آئے ہیں۔ ان لبٹرڈز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو جمہوریت کی بقا کیلئے انتخابات کروانے کا تو بہت شوق ہے البتہ نتائج اپنی پسند کے نہ آنے پر اسے اکثریت کا جبر قرار دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
21modi-yoga1.jpg
 

آصف اثر

معطل
مودی، ٹرمپ، پوٹن، عمران ، نتانیاہو سب کے سب الیکشن لڑ کر اقتدار میں آئے ہیں۔ ان لبٹرڈز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو جمہوریت کی بقا کیلئے انتخابات کروانے کا تو بہت شوق ہے البتہ نتائج اپنی پسند کے نہ آنے پر اسے اکثریت کا جبر قرار دیتے ہیں۔
الیکشن لڑ کے آنا اور الیکشن جیت کے آنا۔ یہ فرق کب سمجھیں گے ہم۔
 

جاسم محمد

محفلین
الیکشن لڑ کے آنا اور الیکشن جیت کے آنا۔ یہ فرق کب سمجھیں گے ہم۔
چلیں پاکستان کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن جیتنے والے دھاندلی اور بکسہ چوروں کی پیداوار ہیں۔
مگر جو بھارت، اسرائیل، امریکہ، ترکی اور روس میں ڈکٹیٹر نما جمہوری لیڈر دھڑا دھڑ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو رہے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟
 

آصف اثر

معطل
چلیں پاکستان کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن جیتنے والے دھاندلی اور بکسہ چوروں کی پیداوار ہیں۔
مگر جو بھارت، اسرائیل، امریکہ، ترکی اور روس میں ڈکٹیٹر نما جمہوری لیڈر دھڑا دھڑ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو رہے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟
بھارت کو نکال دیں۔
 
Top