نور وجدان
لائبریرین
خدا سے تعلق یقین کا ہے ۔ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد ہے ۔ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت! درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ۔۔۔ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ۔ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ۔ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ۔ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ۔ یار کی آمد کی شادیانے ۔ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ۔۔ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ۔ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ۔ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ۔۔ پیکر در پیکر اور میں مسحور ۔۔۔۔ خدا تو ایک ہی ہے ۔ دوئی تو دھوکا ہے ۔ ہجرت پاگل پن ہے ۔ وصل خواب ہے ۔ مبدا سے جدا کب تھے؟ اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ۔ کن سے نفخ کیے گئے ۔۔ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ۔ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہے۔۔۔ ساکن ساکن ہے وجود ۔۔ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ۔ جا بجا نور ۔ جابجا نوری پوشاکیں ۔۔۔ نہ خوف ۔ نہ اندیشہ، یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ۔ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے، جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ۔ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ۔ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ۔ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ۔ بچا نہ کچھ فقط اک آس ۔ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟ یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ۔ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا، تن کے آئنوں میں دیکھا، نقش میں روئے یار ۔ مل گیا وہی ۔ سہاگن باگ لگی ۔ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ۔ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ۔ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ۔اس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ۔ من و تو ۔۔ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت، وہی باطن کی آیت ۔ وہی مشہد، وہ مشہود، وہی شاہد، وہ شہید ۔۔ وہی اعلی، وہی برتر ۔۔۔ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں