یورپ کی معروف اداکارہ کی قبولیت ِ اسلام کی کہانی

انتہا

محفلین
میں نے اسلام کیسے قبول کیا
یورپ کی معروف اداکارہ کی قبولیت ِ اسلام کی کہانی
فاطمہ (مارشیلا انجلو)
میں ایک انتہائی درجے کے متعصب عیسائی خاندان میں اطالوی ماں باپ کے یہاں پیدا ہوئی تھی۔ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر جنیوا کے اسکولوں میں حاصل کی، پھر اپنے خاندان کے ساتھ اٹلی کی راج دھانی روم میں منتقل ہو گئی۔ یہاں میں نے آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ میں اکیڈمی کے زمانے میں ہی اپنی خوبصورتی کے باعث لوگوں کی نظروں کا مرکز بننے لگی تھی۔ روم کے مشہور آرٹسٹوں نے مجھے اپنے فن پاروں اور تجارتی کاموں میں ماڈل کی حیثیت سے کام دینا شروع کر دیا۔ میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی تھی۔ ''فیشن شو'' کے پروگراموں میں بھی حصہ لیتی تھی۔ ان کاموں سے میری شہرت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا رہا۔ اب مجھے فلموں میں بھی کام ملنے لگا تھا جس سے شہرت کے ساتھ ساتھ مال و دولت کے دروازے بھی وا ہونے لگے تھے۔ میں نے شہرت و دولت کی چھاؤں میں آرٹس اکیڈمی میں اپنی تعلیم مکمل کی۔
میری زندگی کا آخری حصہ اطالوی سینما پر چھا جانا اور دیگر ہیروئنوں کو اپنے پیچھے دھکیل دینا تھا۔ اسی عرصے میں میری ملاقات اٹلی کے ایک بڑے اور مشہور پروڈیوسر بیٹرو جرائس سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنی فلم میں ہیروئن کے لیے منتخب کر لیا، جس میں مجھے زبردست کامیابی ہوئی اور پھر میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اطالوی ہیروئنوں کو مجھ پر رشک و حسد ہونے لگا۔ میری زندگی اطالوی سینما کے پردے پر شہرت، مال اور دنیاوی عزت کے سائے میں گزرنے لگی۔
ان دنوں میں اپنے فنی اور پیشہ وارانہ کام کے سوا کچھ اور نہیں سوچتی تھی، یہاں تک کہ میں نے کچھ دوسرے ہیرو اور ہیروئنوں کے ساتھ مصر میں دوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم میں ہیروئن کا کردار اداکرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور مصر کے ایک معروف شہر ''مرسی مطروح'' کا سفر کیا جہاں ہمیں مذکورہ فلم پر کام کرنا تھا۔ شہر میں سے گزرتے ہوئے ایک بار مجھے ایک مقام پر کچھ دیر کے لیے رکنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک چھوٹی سی عمارت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اندر پہنچ کر اپنے جوتے اتارتے ہیں،ہاتھ منہ دھوتے ہیں اور پھر نشست و برخاست کا سا عمل کرتے ہیں۔ پہلے تو مجھے یہ ایک بے معنی سا عمل محسوس ہوا، لیکن پھر میری دلچسپی بڑھی اور میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دیکھنے کے بجائے اسی عمارت میں کچھ اندر تک چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہاں میری طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لوگ بڑی سادگی اور انکسار سے صحن میں پہنچتے اور پہلے سے صف در صف کھڑے کچھ لوگوں میں شامل ہو جاتے۔ یہ لوگ سب کے سب ایک ساتھ جھکتے، ایک ساتھ زمین پر ماتھا ٹیکتے اور ایک ساتھ کھڑے ہوتے۔ میں کھڑی ہوئی سوچتی رہی کہ ان لوگوں کے یہ لمحات کتنے پُرسکون ہیں۔ یہ لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہ آئے تھے۔ میں نے باہر آ کر لوگوں سے عمارت اور ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت مسجد ہے اور یہ لوگ مسلمان ہیں جو اپنے خالق کی عبادت کر رہے ہیں۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا، جب میں نے کسی مسجد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح یہ بھی پہلا موقع تھا، جب میں نے کسی مسجد میں مختلف عمروں، مختلف لباسوں اور سماجی اعتبار سے مختلف سطح کے لوگوں کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا، یہاں تک کہ میں نے ''مسلمان'' نام کی کسی جماعت کو پہلی بار دیکھا تھا۔ ان کے سکون، برابری اور پاک بازی پر مجھے رشک آیا۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد جگر پگھلا دینے والی وہ راتیں اور یادیں پھر میرے دل کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی تھیں، جن میں مَیں کسی منزل کی تلاش میں سرگرداں رہی تھی۔
میں دوسرے دن پھر مسجد گئی۔ وہی مسجد کچھ دیر اس کے دروازے کے سامنے کھڑی رہی اور نمازیوں کو نماز پڑھتے دیکھتی رہی۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں نے ان میں سے ایک دو لوگوں سے تھوڑی سی بات چیت کی۔ میں نے دیکھا کہ نیک طبیعت اور سادہ مزاج لوگ ہیں، بغیر ہیر پھیر کے بات کرتے ہیں، جو ان کے دل میں ہے، وہی اپنی زبان پر لاتے ہیں۔ وہ مجھ سے بیٹی اور بہن کہہ کر ہم کلام ہوئے تھے۔ مجھے ان کی گفتگو سے اپنے لیے تحفظ کا سا احساس ہوا۔ کیوں کہ ابھی تک میں نے اپنی زندگی میں مفاد بھری اور جھوٹی محبت کا مشاہدہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ ''بیٹی'' اور ''بہن'' جیسے خلوص بھرے الفاظ مَیں نے اپنی پوری باشعور زندگی میں اپنے لیے نہ سنے تھے۔
فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی اور ہم سب اٹلی لوٹ آئے۔ اٹلی میں مَیں نے اپنے ایک دوست کو منہ بولا شوہر بنا رکھا تھا۔ یہ دوستی اور شوہری بھی ہم دونوں کے مفادات پر مبنی ایک تحریری معاہدے کی روشنی میں آگے بڑھ رہی تھی، جیسے دو تاجر آپس میں معاہدہ کر کے کوئی کمپنی بنا لیں۔ میں نے گھر آ کر اس معاہدے کو ایک بار پھر پڑھا، اس کے ہر ہر پوائنٹ پر غور کیا۔ میں جس قدر بھی اس پر غور کرتی، اپنی حماقت اور بے عقلی کا احساس فزوں سے فزوں تر ہوتا جاتا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے منہ بولے شوہر اور دوست سے بھی کیا۔ اس کو میری یہ باتیں پسند نہ آئیں اور ہم دونوں کے درمیان ایک نظریاتی دراڑ سی پڑ گئی، جس میں ہر روز اضافہ ہوتا گیا۔ میرے کچھ خیرخواہوں نے ہم دونوں میں مصالحت بھی کرانے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس مصالحت کے ناکام ہونے میں میری بدلی ہوئی سوچ کو زیادہ دخل تھا۔ آخر کار ہم دونوں علیحدگی پر متفق ہو گئے، یہاں تک کہ عملاً علیحدہ ہو گئے۔
میں اب فلموں کے معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی۔ میں اپنے گھر کے کسی حصے میں تنہائی میں بیٹھ کر گھنٹوں سوچتی رہتی۔ میرے ذہن کی تختی پر ان سادہ سے مسلمانوں کا اخلاق، ان کی عبادت کی سادگی، نماز کے دوران میں چھوٹے بڑے میں برابری، ان کے دلوں اور اخلاق کی پاکیزگی، کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھی کہ گھوم پھر کر مصر کے محلے کی اسی چھوٹی سی مسجد کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی۔ ایک دن میں اپنے شہر میں کچھ ضروریات کے لیے نکلی۔ گاڑی چلاتے ہوئے میری نظر ایک بورڈ پر پڑی، جس پر انگریزی اور عربی زبان میں لکھا ہوا تھا: ''مرکز اسلامی روم'' میں نے گاڑی روکی، نیچے اُتری۔ کچھ مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں اپنے یا اپنے ''درد'' کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ہاں، صرف ان سے اطالوی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مانگا۔ ان میں سے جو صاحب میرے پاس قرآن کریم کا ترجمہ لے کر آئے، وہ ایک پیکٹ اور ساتھ میں لائے، جس پر لکھا ہوا تھا: ''بھائیوں کی جانب سے اپنی محترم بہن کی خدمت میں ایک ہدیہ''۔
میں نے اس پیکٹ کو گھر آ کر کھول کر دیکھا تو اس میں اطالوی زبان میں کچھ کتابچے تھے، جو اسلام اور نبی صلى اللہ عليہ وسلم اسلام کے بارے میں کچھ بتاتے تھے، خاص طور سے عورتوں کے بارے میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم رحمت کے نظریات، تفکرات اور اعمال پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے۔ میں قرآن کریم کے اس نسخے اور ان کتابچوں کو ایک بیش بہا خزانہ سمجھ کر چھپا چھپا کر رکھتی اور تنہائیوں میں گھنٹوں ان کا مطالعہ کرتی۔ یہ کتابچے اور کتابِ ہدایت ہر بار مجھ پر نور اور ہدایت کا ایک نیا باب روشن کرتے۔ ایک دن خودبخود اور اچانک دل میں خیال آیا کہ جب ایک چیز پر دل جم گیا ہے تو اب تذبذب اور تامل کے کیا معنی؟ میں اسلامی مرکز پہنچی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ میں سوچتی تھی کہ ایمان لانے کی کارروائی میں چند ہفتے یا چند دن تو ضرور لگیں گے اور نہ جانے اس کارروائی کے دوران کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔ ایمان کی بنیادی باتیں یا عقائد مَیں پہلے ہی دل سے مان چکی تھی۔ اسلامی مرکز کے برادران نے جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسلام کی گہری سوچ اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، کہا کہ بس یہی باتیں زبان سے دہرا لو۔ میں نے ایسا ہی کیا، پھر ان میں سے ایک شخص نے مجھ سے کلمہ شہادت اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ اور اس کا ترجمہ زبان سے کہلوایا۔ مجھے اس دن جو قلبی سکون اور راحت محسوس ہوئی، وہ مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد میں مرکز اسلامی کی ایک اہم ممبر اور کارکن بن گئی (اور اس کام کو زندگی کے مشن کی حیثیت سے اختیار کرلیا)۔
جب میں نے اپنے دوست اور منہ بولے شوہر سے علیحدگی اختیار کی تھی تو انہوں نے بوقت رخصت مجھ سے کہا تھا: مارشیلا! کبھی کبھی فون کرتے رہنا۔ تقریباً دو سال کے عرصے کے بعد مجھے خیال آیا کہ انھیں فون کر کے اپنے فیصلے سے آگاہ کروں اور دین اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے بھی پیش کروں، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں، اگرچہ وہ جوانی کے جذبات پر مبنی ہے، مگر وہ ایک مثبت سوچ کے شخص بھی ہیں۔ شام کے چار بجے ہوں گے۔ میں نے نمبر ڈائل کیا: ہیلو! آواز آئی: ہیلو مارشیلا! واپسی مبارک ہو۔ میں نے کہا: میں صرف ملنا چاہتی ہوں، ایک خبر دینے کے لیے۔ آواز آئی: میں منتظر ہوں۔ میں اسی فلیٹ میں پہنچی، جہاں میں نے خرافات کی دنیا کے برسہا برس گزارے تھے۔ میں نے دوست کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا اور اسلام کے بارے میں کچھ موٹی موٹی باتیں بتائیں۔ کہنے لگا: یہ مذہب بڑھاپے کے لیے بڑا مناسب معلوم ہوتا ہے، کیوں نہ ہم ٣٠سال بعد اس کو اختیار کریں۔
میں نے کہا: آپ مجھے یہ لکھ کر دے دیجیے کہ تیس سال بعد تک ہم ضرور زندہ رہیں گے۔ بولے: ہاں، یہ تو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ لگتا ہے کہ تم نے کافی سوچ سمجھ کر اور پڑھ لکھ کر یہ قدم اٹھایا ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ وہ بولے کہ کسی مذہب کو قبول کرنے کے لیے میں ابھی خود کو آمادہ نہیں پاتا ہوں، لیکن یہ یقین ہے کہ تم نے میرے لیے وہی سوچا ہو گا جو اپنے لیے اچھا سمجھتی ہو اور جو تمہارے لیے اچھا ہے، میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے لیے بھی ضرور اچھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ (ہنستے ہوئے) میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر پہلے مارشیلا مل جائے تو پھر خدا بھی ضرور مل جائے گا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس کا الٹا ممکن ہے۔ وہ نہایت سنجیدگی سے پوچھنے لگے: اچھا، اسلام لانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا؟میں نے کہا: ایک تو اللہ کو ایک ماننا ہو گا۔ بات کاٹتے ہوئے وہ بولے: ویسے میں جب کبھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اللہ کو ایک ہی ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اسلام اللہ کو ایک ہی مانتا ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے اور کیا کرنا ہو گا؟ میں نے کہا کہ آخرت کو ماننا ہو گا۔ بولے: تم جانتی ہو، یہ تو میں تم سے پہلے سے مانتا ہوں۔ میں نے کہا: محمد صلى اللہ عليہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا ہو گا۔ پلٹ کر بولے: لیکن میں نے ان کے نظریات اور لائف کو نہیں پڑھا ہے۔ کیا تم نے پڑھا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں وہ پوری انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ بولے: لیکن قتل و غارت گری کی بھی تو بات کہی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ سب جھوٹ ہے۔ کہنے لگے کہ اور کیا کرنا ہو گا؟ میں نے کہا کہ بس انہی باتوں کا زبان سے اقرار کرنا ہو گا۔ کہنے لگے: کہاں؟ میڈیا میں؟ میں نے کہا کہ نہیں، میرے ہی سامنے اقرار کر لیجیے۔ ہنس کر کہنے لگے کہ تمہارے سوا ایک گواہ اور ہونا چاہیے۔ میں نے کہا کہ اچھا چلو، اسلامی مرکز چلتے ہیں، وہاں ہمارے دیگر مسلم دوست ہیں، یہاں تفصیل سے بات ہو جائے گی۔ گاڑی مَیں نے ہی ڈرائیو کی۔ راستے میں ہنس کر کہنے لگے کہ اس پریکٹس سے اتنا فائدہ ضرور ہو گا کہ خدا ملے نہ ملے، مارشیلا ضرور مل جائے گی۔ میں نے کہا کہ نہیں مارشیلا کو پانے کے لیے پہلے خدا کو پانا ضروری ہے۔
آخرکار ہم مرکز پہنچے، وہاں ذمے داران سے ملاقات ہوئی۔ معمولی سی گفتگو کے بعد (جیسا کہ مجھے توقع تھی) میرے دوست مرکز والوں کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اورکلمہ شہادت پڑھ لیا۔ میرے دوست نے کہا کہ میرے لیے کوئی اچھا اسلامی نام بھی تجویز کر دیجیے۔ انہوں نے ''عبداللہ'' تجویز کیا، پھر میں نے بھی یہی مطالبہ کیا۔ انہوں نے میرا نام ''فاطمہ'' تجویز کیا۔
مرکز کے میرے ایک ساتھی نے (جو مجھ سے میری کہانی پہلے تفصیل سے سن چکے تھے) کہا کہ میری دعا ہے کہ آپ دونوں پہلے کی طرح ایک ساتھ رہیں۔ میرے دوست مسکرا کر بولے کہ میں ابھی فوراً یہ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے بھی آمدگی ظاہر کی۔ مرکز ہی کے ایک بزرگ نے ہمارا نکاح پڑھا دیا اور اس طرح میں مارشیلا انجلو سے فاطمہ عبداللہ ہو گئی۔
میرے شوہر اس کارروائی کی سادگی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ میں سمجھتا تھا کہ اگر مجھے کبھی اسلام لانا پڑا تو مسلمانوں کی طرف سے کم از کم سو دو سو عیسائیوں کے قتل کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ یہ بیان کر کے وہ بہت ہنستے ہیں۔
[/ENG]
 
Top