علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش لاہوری وحدت الوجود کے عقیدے کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سورج اور چاند کو اپنا رب کہا وہ اس لئے کہا کہ نبی ہونے کی حیثیت سے آپ وحدت الوجود کے قائل تھے لہٰذا ہر چیز میں ان کو خدا نظر آیا۔
شرح کشف المحجوب، صفحہ 884
صوفی علی ہجویری صاحب دوسری جگہ اسی وحدت الوجود کے عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
: کائنات کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہرچیز وجود حق میں شامل ہے۔چناچہ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو بارگاہ رب العزت کی طرف سے کچھ الہامات ہوئے۔ان میں سے ایک الہام یہ ہے
من ارد العبادۃ بعد الوصل
(جس نے وصل کے بعد عبادت کی کافر ہوا)
اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وحدت الوجود حقیقت ہے جب انسان ذات حق میں فنا ہو جاتا ہے یعنی مقام فنا فی اللہ پر پہنچ جاتا ہے تو کس کی عبادت کرے۔لہٰذا جب وہ عبادت کرتا ہے تو وہ وحدت الوجود سے منحرف ہوکر عبادت کرتا ہے اس انحراف کو کفر کا نام دیا گیا ہے۔ کفر کے لفظی معنی بھی چھپانے کے ہیں مطلب یہ کہ چونکہ وحدت الوجود حقیقت ہے۔جب بھی سالک مقام فنا (وحدت الوجود)سے واپس آکر اپنی مفروضہ دوئی میں آتا ہے اور عبادت کرتا ہے تو اس کا عبادت کرنا گویا حق بات کو چھپانے کے مترادف ہوتا ہے۔اور حق بات چھپانا کفر ہے۔ اس کفر کو کفر حقیقی کہا جاتا ہے۔
شرح کشف المحجوب، صفحہ 885
ننگے صوفیاء بھی اہل حق میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ علی ہجویری صاحب لکھتے ہیں :
بعض بزرگان ایسے بھی ہوئے ہیں جو لباس کی پرواہ نہیں کرتے۔اور جو کچھ خداوند تعالیٰ دیتا ہے پہن لیتے ہیں خواہ وہ قبا (شاہ لباس) ہو یا عبا (درویشی لباس) اور اگر حق تعالیٰ ان کو ننگے تن رکھتے ہیں ۔تو وہ ننگے تن رہتے ہیں اور میں علی بن عثمان الجلابی بھی اسی روش کو پسند کرتا ہوں۔اور سفر کی حالت میں ،میں نے اسی پر عمل کیا ہے،
شرح کشف المحجوب، صفحہ 254
ترک دنیا کے صوفیانہ عقیدے کے بارے لکھتے ہیں :
جاننا چاہیے کہ طریق ملامت کو پہلے پہل شیخ ابوحمدون قصار علیہ رحمہ نے رائج کیا اور اس بارے میں آپ کے اقوال لطیف ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ
الملامتہ ترک السلامتہ
(ملامت کا اختیار کرنا سلامتی کا ترک کرنا ہے)
اور جو شخص جان بوجھ کر سلامتی ترک کرتا ہے وہ آفات کو دعوت دیتا ہے اور اسے آرام و راحت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور طلب جاہ و مال اور خلق خدا سے نا امید ہونا پڑتا ہے اور دنیا سے بیزار ہونا پڑتا ہے اور جس قدر آدمی دنیا سے بیزار ہوتا ہے حق تعالیٰ سے اسی قدر اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
شرح کشف المحجوب،صفحہ 277
واجد بخش سیال شارح کشف المحجوب لکھتے ہیں: اس لئے بعض اولیاء کرام کمال صدق و خلوص کی بنا پر عمداً ایسے کام کرتے ہیں جن سے خلق میں بدنام ہوجائیں۔اگرچہ بظاہر ان کے یہ کام خلاف شرع نظر آتے ہیں در حقیقت وہ خلاف شرع نہیں ہوتے ۔(شرح کشف المحجوب، صفحہ 274)
اپنے نفس کو ذلت میں مبتلا کرنے کے صوفیانہ نظریہ کے بارے لکھتے ہیں :
حضرت ابراہیم بن ادھم علیہ رحمہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی مراد کب پوری ہوئی؟ آپ نے فرمایا کہ دو موقعوں پر میرے دل کی مراد پوری ہوئی ۔ایک اس وقت جب میں کشتی میں سوار تھا اور سب لوگ مجھے حقیر جان کر مجھ سے ٹھٹھا مخول کررہے تھے کیونکہ میرے کپڑے پھٹے پرانے اور سر کے بال پراگندہ تھے ۔کشتی میں ایک مسخرہ بھی تھا جو ہروقت آکر میرے بال نوچتا تھا حتی کہ جب اس کو پیشاب کی ضرورت ہوئی تو اس نے اٹھ کر مجھ پر پیشاب کردیا۔اس وقت(ذلت نفس کی وجہ سے)مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ کبھی نصیب نہیں ہوئی....
شرح کشف المحجوب، صفحہ 282
مذہبی عقائد اور نظریات