عینی مروت
محفلین
کچھ عرصہ پہلے لکھی ہوئی اپنی ایک تحریر۔۔۔
یومِ آزادی پر۔۔۔۔۔ جشن یا نوحہ؟
آج میری آنکھیں پھر ایک شناسا منظر دیکھ کرکسی گہری سوچ میں غرق ہو گئیں۔۔جشنِ آزادی۔۔۔۔پر ،یومِ آزادی کو خراج دینے کا منظر دیکھ کر!!۔گلیوں اور بازاروں میں بےخودی سے رقص کرتے ان جیالوں کے جوش کا منظر۔میرے وطن کی پاک بیٹیوں کے سرسے ڈھلکے ہوئے آنچل،آزادی کے نعروں کا نظارہ۔۔۔چراغاں،آتشبازی اور جانے کیا کچھ!!۔۔
میری قوم اس آزادی کا جشن منا رہی ہےجسے ہماری بے حسی یا غفلت طاقِ نسیاں کرنے چلی ہے۔۔آہ!!۔ان مزین عمارات کی خوبصورتی کی چکاچوند،ان مناظر کی تابانی اس ملک و ملت کے ان تاریک گوشوں کو منور نہیں کر سکتی۔۔۔جسے حقیقت کی روشنی میں پرکھنے سے ہر آنکھ کتراتی ہے!۔کاش ہم اس مقدس لفظ کے نام پرعقیدت کے اظھار کے لئےصرف جھنڈیاں لہرانے،محفلیں سجا کر مشاہیرِ قوم کے نام پہ قصائد پڑھنے،اور اپنی حب الوطنی کے اظھار کے لئے محض جشن منانا ہی کافی نہ سمجھتے بلکہ زندہ قوموں کا وتیرہ اپناتے ہوئے اس کی تعظیم بھی کرتے۔عقیدت صرف لفظی اظھار سے ظاہرنہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے عملی مظاہرہ بھی ضروری ہوتا ہے!!۔
جشن چراغان پر کی گئی چکاچوند کو دیکھ کر نہ جانے کتنوں کے دل میں یہ حسرت جاگی ہو گی کہ ان لوازمات پر آئی ہوئی لاگت کا اگر صرف نصف حصہ بھی ان کو تھما دیا جاتا تو ان کے گھر میں بھوک افلاس سے بلبلاتےاور جہالت کی تاریکی میں پلتے اس کے بچوں کی روزی یا بنیادی تعلیم کی راہ تو نکل ہی آتی ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ سے دبتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ان کی واپسی کا اہتمام "اس اہتمام" سے زیادہ ضروری
سمجھا جاتا تو آج بیرونی طاقتیں یوں ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی جراءت نہ کرتیں۔سالہا سال سے ان خوش خرچیوں اور اسطرح کی اورفیاضیوں پر آنے والی رقم اگر ملک کی تعمیری سرگرمیوں ،تعلیم،عوام کی فلاح و بہبود،اور نئی نسل کے لئے روزگار کی سہولتوں کے لیے بچا کر رکھی جاتی تو بہت سے سیہ بختوں کی قسمت سنور سکتی تھی اس پرجوش،محنتی اور محب وطن قوم کے حکمراں اگر اس دن لمبی لمبی تقاریر پر وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ سوچ بچار کرتےکہ وہ اس خداداد تحفے کو۔۔۔ اس پاک وطن کو افلاک کی بلندیوں تک پہنچانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تو کتنا اچھا ہوتا!!۔۔آج اس سائباں پر مصائب کی یلغار ہے جس نے ہمیں ۱۹۴۷ کوغلامی کے تپتے صحرا میں مہربان سایہ فراہم کیا تھاآج اندرونی انتشار،بد امنی کی فضا میں دہشت گردی کے مہیب سائے،ہمارے تعاقب میں ہیں اور حد یہ کہ ایک بھائی کا ہاتھ اپنے ہی بھائی کے گریبان پہ ہے۔۔۔ اور جواب میں اس سرزمیں پہ کلنک کے یہ ٹیکے کس نے لگائے؟خود ہم نے!!۔حکومت ہماری ہے اور حاکم کوئی اور ہے ۔۔۔افسوس!ہم آج بھی نہیں سنبھلے،ملاح محوِ جشن چراغاں ہیں اور کشتی ہے کہ گرداب کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے
کیسے کہیں کہ یہاں ہم خوشی و طرب کے نغمے گا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان میں کہیں کوئی ان دیکھا،ان سنانوحہ بین کر رہا ہوتا ہےجو صرف اہل بصیرت ہی محسوس کر سکتے ہیں۔اس دن کہیں پہ بلند عمارات میں زندگی مسکرا رہی ہوتی ہے تو کہیں تاریک کچے مکانوں میں
بے بسی و لاچاری خاموش آنسو بہا رہی ہوتی ہے۔۔۔یہاں بزم کی رونق کے لئے قمقموں کے اہتمام کئے جا رہے ہیں
اور وہاں ساری عوام کے شب و روز روزانہ لوڈشیڈنگ کی بھینٹ چڑھتے ہیں
الہی! میری قوم میں جرات کی کمی نہیں،محنت ان کی گٹھی میں پڑی ہے۔یہ زندہ دل آج بھی اتنے ہی زندہ دل ہیں جتنا کہ کبھی ہوا کرتے تھےتو اسے راہِ راست دکھا دے۔۔۔۔یہ شرر شعلہ فشانی کے گر سے اب بھی آگاہ ہے بس ایک زندگی اور عزم کی پھونک
باقی ہے اگر کوئی دے تو۔۔!!۔کوئی رہنما تو ہو جو انہیں مثبت تحریک دے
میرے وطن کے بیٹو!،گرتی دیواریں سہارے کی تلاش میں ہیں کہاں ہیں وہ مزدور جو انہین ڈھے جانے سے بچا لیں!۔
میرے علمی مراکز تاریکی میں نہ ڈوبنے دینا۔۔۔چاہے اس دن قمقمے نہ جلیں تو نہ جلیں پر علم کی شمع نہ بجھنے پائے!۔
ہمین اپنے فلک کو آتشبازی سے نہیں ،اپنے کارہائے نمایاں سے منور کرنا ہے
سرحدوں پر عیار دشمن کی للچائی نظریں جانے کب سے ہماری غفلت کا انتطار کر رہی ہیں پر میرے جانبازو!۔
یوم آزادی پر اگر رقصاں نہیں ہوئے تو نہ سہی پر اپنی سرزمیں کی گلیوں کوچوں میں دشمن کو اپنی فتح کا رقص نہ کرنے دینا!۔
میری بہنو اور ماؤ!آزادی پر اس محفل جشن کی شمع تم نہیں ہو
تمہیں تو گھر کی زینت بننا ہے اور وہ نسل تیار کرنی ہے جو ناقابل تسخیر ہو۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔بیدارئ ذات کی ضرورت ہے،خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے کہ انفرادی اصلاح ہی اجتماعی اصلاحی انقلاب لا سکتی ہے
اور اب بھی ہم نہ سنبھلے تو۔۔۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!۔
یہ پاک وطن جس نام پہ بنا تھا وہ کلمہ سرنگوں کیسے ہو سکتا ہے!ہنگامِ زمانہ اس مضبوط قلعے پر یلغار کرتی رہیں گیامواجِ مصائب آآ کے اس کی دیواروں سے ٹکرائیں گی اور شکست خوردہ ہو کر سر پٹکتی لوٹ جائیں گی۔اگر ہمارے حوصلے سلامت ہوئے تو!!۔پھر یہمشکلات جو آج کسی دیوہیکل اژدہا کی مانند منہ کھولے کھڑی ہیں، اپنی منزل کی جانب اس سفر میں ہمیں محض راہ کا کنکر نظر آئیں گی
مرے وطن ترے دامان تار تار کی خیر
ہر ایک دیدۂ پرنم کی آب و تاب کی خیر
نورالعین عینی
یومِ آزادی پر۔۔۔۔۔ جشن یا نوحہ؟
آج میری آنکھیں پھر ایک شناسا منظر دیکھ کرکسی گہری سوچ میں غرق ہو گئیں۔۔جشنِ آزادی۔۔۔۔پر ،یومِ آزادی کو خراج دینے کا منظر دیکھ کر!!۔گلیوں اور بازاروں میں بےخودی سے رقص کرتے ان جیالوں کے جوش کا منظر۔میرے وطن کی پاک بیٹیوں کے سرسے ڈھلکے ہوئے آنچل،آزادی کے نعروں کا نظارہ۔۔۔چراغاں،آتشبازی اور جانے کیا کچھ!!۔۔
میری قوم اس آزادی کا جشن منا رہی ہےجسے ہماری بے حسی یا غفلت طاقِ نسیاں کرنے چلی ہے۔۔آہ!!۔ان مزین عمارات کی خوبصورتی کی چکاچوند،ان مناظر کی تابانی اس ملک و ملت کے ان تاریک گوشوں کو منور نہیں کر سکتی۔۔۔جسے حقیقت کی روشنی میں پرکھنے سے ہر آنکھ کتراتی ہے!۔کاش ہم اس مقدس لفظ کے نام پرعقیدت کے اظھار کے لئےصرف جھنڈیاں لہرانے،محفلیں سجا کر مشاہیرِ قوم کے نام پہ قصائد پڑھنے،اور اپنی حب الوطنی کے اظھار کے لئے محض جشن منانا ہی کافی نہ سمجھتے بلکہ زندہ قوموں کا وتیرہ اپناتے ہوئے اس کی تعظیم بھی کرتے۔عقیدت صرف لفظی اظھار سے ظاہرنہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے عملی مظاہرہ بھی ضروری ہوتا ہے!!۔
جشن چراغان پر کی گئی چکاچوند کو دیکھ کر نہ جانے کتنوں کے دل میں یہ حسرت جاگی ہو گی کہ ان لوازمات پر آئی ہوئی لاگت کا اگر صرف نصف حصہ بھی ان کو تھما دیا جاتا تو ان کے گھر میں بھوک افلاس سے بلبلاتےاور جہالت کی تاریکی میں پلتے اس کے بچوں کی روزی یا بنیادی تعلیم کی راہ تو نکل ہی آتی ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ سے دبتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ان کی واپسی کا اہتمام "اس اہتمام" سے زیادہ ضروری
سمجھا جاتا تو آج بیرونی طاقتیں یوں ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی جراءت نہ کرتیں۔سالہا سال سے ان خوش خرچیوں اور اسطرح کی اورفیاضیوں پر آنے والی رقم اگر ملک کی تعمیری سرگرمیوں ،تعلیم،عوام کی فلاح و بہبود،اور نئی نسل کے لئے روزگار کی سہولتوں کے لیے بچا کر رکھی جاتی تو بہت سے سیہ بختوں کی قسمت سنور سکتی تھی اس پرجوش،محنتی اور محب وطن قوم کے حکمراں اگر اس دن لمبی لمبی تقاریر پر وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ سوچ بچار کرتےکہ وہ اس خداداد تحفے کو۔۔۔ اس پاک وطن کو افلاک کی بلندیوں تک پہنچانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تو کتنا اچھا ہوتا!!۔۔آج اس سائباں پر مصائب کی یلغار ہے جس نے ہمیں ۱۹۴۷ کوغلامی کے تپتے صحرا میں مہربان سایہ فراہم کیا تھاآج اندرونی انتشار،بد امنی کی فضا میں دہشت گردی کے مہیب سائے،ہمارے تعاقب میں ہیں اور حد یہ کہ ایک بھائی کا ہاتھ اپنے ہی بھائی کے گریبان پہ ہے۔۔۔ اور جواب میں اس سرزمیں پہ کلنک کے یہ ٹیکے کس نے لگائے؟خود ہم نے!!۔حکومت ہماری ہے اور حاکم کوئی اور ہے ۔۔۔افسوس!ہم آج بھی نہیں سنبھلے،ملاح محوِ جشن چراغاں ہیں اور کشتی ہے کہ گرداب کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے
کیسے کہیں کہ یہاں ہم خوشی و طرب کے نغمے گا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان میں کہیں کوئی ان دیکھا،ان سنانوحہ بین کر رہا ہوتا ہےجو صرف اہل بصیرت ہی محسوس کر سکتے ہیں۔اس دن کہیں پہ بلند عمارات میں زندگی مسکرا رہی ہوتی ہے تو کہیں تاریک کچے مکانوں میں
بے بسی و لاچاری خاموش آنسو بہا رہی ہوتی ہے۔۔۔یہاں بزم کی رونق کے لئے قمقموں کے اہتمام کئے جا رہے ہیں
اور وہاں ساری عوام کے شب و روز روزانہ لوڈشیڈنگ کی بھینٹ چڑھتے ہیں
الہی! میری قوم میں جرات کی کمی نہیں،محنت ان کی گٹھی میں پڑی ہے۔یہ زندہ دل آج بھی اتنے ہی زندہ دل ہیں جتنا کہ کبھی ہوا کرتے تھےتو اسے راہِ راست دکھا دے۔۔۔۔یہ شرر شعلہ فشانی کے گر سے اب بھی آگاہ ہے بس ایک زندگی اور عزم کی پھونک
باقی ہے اگر کوئی دے تو۔۔!!۔کوئی رہنما تو ہو جو انہیں مثبت تحریک دے
میرے وطن کے بیٹو!،گرتی دیواریں سہارے کی تلاش میں ہیں کہاں ہیں وہ مزدور جو انہین ڈھے جانے سے بچا لیں!۔
میرے علمی مراکز تاریکی میں نہ ڈوبنے دینا۔۔۔چاہے اس دن قمقمے نہ جلیں تو نہ جلیں پر علم کی شمع نہ بجھنے پائے!۔
ہمین اپنے فلک کو آتشبازی سے نہیں ،اپنے کارہائے نمایاں سے منور کرنا ہے
سرحدوں پر عیار دشمن کی للچائی نظریں جانے کب سے ہماری غفلت کا انتطار کر رہی ہیں پر میرے جانبازو!۔
یوم آزادی پر اگر رقصاں نہیں ہوئے تو نہ سہی پر اپنی سرزمیں کی گلیوں کوچوں میں دشمن کو اپنی فتح کا رقص نہ کرنے دینا!۔
میری بہنو اور ماؤ!آزادی پر اس محفل جشن کی شمع تم نہیں ہو
تمہیں تو گھر کی زینت بننا ہے اور وہ نسل تیار کرنی ہے جو ناقابل تسخیر ہو۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔بیدارئ ذات کی ضرورت ہے،خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے کہ انفرادی اصلاح ہی اجتماعی اصلاحی انقلاب لا سکتی ہے
اور اب بھی ہم نہ سنبھلے تو۔۔۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!۔
یہ پاک وطن جس نام پہ بنا تھا وہ کلمہ سرنگوں کیسے ہو سکتا ہے!ہنگامِ زمانہ اس مضبوط قلعے پر یلغار کرتی رہیں گیامواجِ مصائب آآ کے اس کی دیواروں سے ٹکرائیں گی اور شکست خوردہ ہو کر سر پٹکتی لوٹ جائیں گی۔اگر ہمارے حوصلے سلامت ہوئے تو!!۔پھر یہمشکلات جو آج کسی دیوہیکل اژدہا کی مانند منہ کھولے کھڑی ہیں، اپنی منزل کی جانب اس سفر میں ہمیں محض راہ کا کنکر نظر آئیں گی
مرے وطن ترے دامان تار تار کی خیر
ہر ایک دیدۂ پرنم کی آب و تاب کی خیر
نورالعین عینی