arifkarim
معطل
پیغمبرِ اسلام کے بارے میں امریکہ میں بنائی گئی توہین آمیز فلم کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور پرتشدد واقعات میں ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم انیس افراد ہلاک اور متعدد پولیس اہلکاروں سمیت سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
حکومتِ پاکستان نے جمعہ کو ’یومِ عشقِ رسول‘ منانے کے لیے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم سیکریٹیریٹ میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی شریک ہوئے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جمعہ کی صبح سے ہی شروع ہو گیا تھا اور نمازِ جمعہ کے بعد ان میں شدت آ گئی۔ لاہور، کراچی اور دارالحکومت اسلام آباد میں نکالی جانے والی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر مردان میں مشتعل مظاہرین نے سینٹ پال چرچ کو آگ لگا دی جس سے چرچ کو کافی نقصان پہنچا۔ مظاہرین نے چرچ کے گیٹ کو توڑا اور اندر داخل ہو کر چرچ میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آگ لگا دی۔ اسی طرح ایک موبائل فون کے دفتر کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
اسلام آباد
اسلام آباد میں نمازِ جمعہ کے بعد آبپارہ کے علاقے میں بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان افراد کا رخ ریڈ زون میں واقع سفارتی علاقے کی طرف تھا۔
ہمارے نامہ نگار کے مطابق مظاہرین نے ریڈ زون کے باہر پولیس کی جانب سے قائم کیا گیا پہلا حفاظتی حصار عبور کر لیا تاہم اس کے بعد پولیس نے ہوائی فائرنگ کر کے انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔
مظاہرین میں سے بیشتر کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے اور وہ تین جانب سے سفارتی علاقے کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ سرینا چوک کے علاقے میں ان مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا اور پولیس نے ان پر آنسو گیس پھینکی۔
دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز ہونے والے مظاہروں کے بعد جمعہ کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ریڈ زون کی سکیورٹی کے لیے پاکستانی فوج کو طلب کیا۔
ریڈ زون میں ایوانِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سیکرٹیریٹ، پارلیمان اور سپریم کورٹ کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیو بھی واقع ہے۔
کراچی
کراچی میں حکام نے ہلاکتوں کی تعداد چودہ ہو جانے کی تصدیق کردی ہے۔
سندھ کے پولیس سرجن ڈاکٹر جلیل کے مطابق جناح ہسپتال میں لاشوں کی تعداد چھ ہے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر جلیل نے بتایا کہ شہر کے کئی علاقوں سے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد کی لاشیں جناح ہسپتال لائی گئیں جبکہ وہاں دوران علاج ایک زخمی چل بسا جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ اور زخمیوں کی تعداد چوّن ہو گئی ہے۔
ڈی آئی جی کراچی ویسٹ نعیم اکرم بروکا نے بتایا کہ ان کے علاقے میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان میں منگھو پیر تھانے پر حملے میں ٹریفک پولیس کے ایک سب انسپیکٹر سمیت دو دیگر پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو دن بھر کی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔
ناظم آباد میں واقع سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ہستپال عباسی شہید کے ایم ایل او ڈاکٹر یوسف کے مطابق ہسپتال میں دو پولیس اہلکاروں سمیت تین افراد کی لاشیں لائی گئیں۔
اس سے قبل سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر انصاری نے بھی تصدیق کی تھی کہ سول ہسپتال میں بھی پانچ لاشیں لائی گئی تھیں۔
کراچی میں دن بھر جاری رہنے والے احتجاج اور پرتشدد واقعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد چودہ ہو گئی ہے۔
اس سے پہلے کراچی میں احتجاج کے دوران بوٹ بیسن سے بلاول ہاؤس اور امریکی قونصل خانے کی جانب جانے والی سڑکیں کئی گھنٹے میدان جنگ بنی رہیں۔
شہر میں تین پولیس موبائل گاڑیوں، تین بینکوں کی شاخوں اور شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر بھی دو سینما گھروں سمیت تین سینماؤں پر حملہ کر کے ان املاک کو آگ لگا دی گئی۔ اس کے علاوہ پی آئی ڈی سی چوک پر نیشنل بینک اور فائیو اسٹار ہوٹل کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
اسلام آباد میں پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے فائرنگ کی
کراچی میں مظاہروں کے آغاز پر ابتدائی طور پر مشتعل افراد نے بلاول ہاؤس کی جانب مارچ کیا جہاں پولیس نے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کر کے انہیں منتشر کیا۔
مظاہرین کا اگلا نشانہ امریکی قونصل خانہ تھا جہاں پولیس نے شدید فائرنگ کی اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
پولیس کی فائرنگ سے کچھ لوگ زخمی ہوئے جبکہ کراچی پولیس کے افسر احمد حسن نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مسلح مظاہرین کی پولیس پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کی سڑک کو بھی دونوں اطراف سے کنٹینروں کی مدد سے بند کیا گیا تھا اور مظاہرین یہاں جمع ہو کر نعرے لگاتے رہے اور انہوں نے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا۔
سندھ رینجرز کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ شہر میں زخمیوں کی تعداد تیس سے چالیس تک ہوسکتی ہے مگر ان میں براہ راست گولی سے زخمی کوئی نہیں ہوا۔
رینجرز کے افسر کے مطابق ان میں آنسو گیس کا گولہ لگنے سے، کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش میں گرنے، پتھراؤ یا توڑ پھوڑ کے دوران زخمی ہونے والے افراد شامل ہیں۔
پشاور/راولپنڈی
پشاور میں بھی گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کے موقع پر مظاہرین نے دو سنیما گھروں کو آگ لگا دی جبکہ بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ بھی کی۔
اس موقع پر فائرنگ سے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی ڈی ایس این جی ویگن کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں پرتشدد واقعات میں مزید چار افراد ہلاک اور سات پولیس اہلکاروں سمیت چالیس زخمی ہوگئے۔
پشاور میں امریکی قونصلیٹ کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر جبکہ ملحقہ چھوٹی سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کیا گیا تھا۔
راولپنڈی میں سیدپور روڈ پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ مظاہرین نے آئی جے پرنسپل روڈ پر واقع نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ٹول پلازہ کو آگ لگا دی اور وہاں موجود گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی کی بڑی شاہراہ مری روڈ کو کئی مقامات پر جلتے ٹائروں اور بڑے بڑے پتھروں کے ذریعے بند کر دیا گیا۔
گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کے موقع پر پشاور میں مظاہرین نے دو سنیما گھروں کو آگ لگا دی
راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر بھی پولیس اور دارالحکومت میں داخلے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے اشک آور گیس کا استعمال کیا۔
لاہور
لاہور میں تمام بازار بند اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی۔ مال روڈ پر واقع مسجد شہداء کے باہر مظاہرے ہوئے۔
لاہور میں بھی امریکی قونصل خانوں کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے لیکن مظاہرین نے رکاوٹیں عبور کر لیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، کراچی سمیت پندرہ شہروں میں موبائل سروس بند کر دی تھی جسے بعد ازان جزوی طور پر بحال کر دیا گیا۔
حوالہ: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/09/120921_film_protests_friday_rh.shtml
حکومتِ پاکستان نے جمعہ کو ’یومِ عشقِ رسول‘ منانے کے لیے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم سیکریٹیریٹ میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی شریک ہوئے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جمعہ کی صبح سے ہی شروع ہو گیا تھا اور نمازِ جمعہ کے بعد ان میں شدت آ گئی۔ لاہور، کراچی اور دارالحکومت اسلام آباد میں نکالی جانے والی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر مردان میں مشتعل مظاہرین نے سینٹ پال چرچ کو آگ لگا دی جس سے چرچ کو کافی نقصان پہنچا۔ مظاہرین نے چرچ کے گیٹ کو توڑا اور اندر داخل ہو کر چرچ میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد آگ لگا دی۔ اسی طرح ایک موبائل فون کے دفتر کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
اسلام آباد
اسلام آباد میں نمازِ جمعہ کے بعد آبپارہ کے علاقے میں بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان افراد کا رخ ریڈ زون میں واقع سفارتی علاقے کی طرف تھا۔
ہمارے نامہ نگار کے مطابق مظاہرین نے ریڈ زون کے باہر پولیس کی جانب سے قائم کیا گیا پہلا حفاظتی حصار عبور کر لیا تاہم اس کے بعد پولیس نے ہوائی فائرنگ کر کے انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔
مظاہرین میں سے بیشتر کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے اور وہ تین جانب سے سفارتی علاقے کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ سرینا چوک کے علاقے میں ان مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا اور پولیس نے ان پر آنسو گیس پھینکی۔
دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز ہونے والے مظاہروں کے بعد جمعہ کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ریڈ زون کی سکیورٹی کے لیے پاکستانی فوج کو طلب کیا۔
ریڈ زون میں ایوانِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، سیکرٹیریٹ، پارلیمان اور سپریم کورٹ کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیو بھی واقع ہے۔
کراچی
کراچی میں حکام نے ہلاکتوں کی تعداد چودہ ہو جانے کی تصدیق کردی ہے۔
سندھ کے پولیس سرجن ڈاکٹر جلیل کے مطابق جناح ہسپتال میں لاشوں کی تعداد چھ ہے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر جلیل نے بتایا کہ شہر کے کئی علاقوں سے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد کی لاشیں جناح ہسپتال لائی گئیں جبکہ وہاں دوران علاج ایک زخمی چل بسا جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ اور زخمیوں کی تعداد چوّن ہو گئی ہے۔
ڈی آئی جی کراچی ویسٹ نعیم اکرم بروکا نے بتایا کہ ان کے علاقے میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان میں منگھو پیر تھانے پر حملے میں ٹریفک پولیس کے ایک سب انسپیکٹر سمیت دو دیگر پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو دن بھر کی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔
ناظم آباد میں واقع سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ہستپال عباسی شہید کے ایم ایل او ڈاکٹر یوسف کے مطابق ہسپتال میں دو پولیس اہلکاروں سمیت تین افراد کی لاشیں لائی گئیں۔
اس سے قبل سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر انصاری نے بھی تصدیق کی تھی کہ سول ہسپتال میں بھی پانچ لاشیں لائی گئی تھیں۔
کراچی میں دن بھر جاری رہنے والے احتجاج اور پرتشدد واقعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد چودہ ہو گئی ہے۔
اس سے پہلے کراچی میں احتجاج کے دوران بوٹ بیسن سے بلاول ہاؤس اور امریکی قونصل خانے کی جانب جانے والی سڑکیں کئی گھنٹے میدان جنگ بنی رہیں۔
شہر میں تین پولیس موبائل گاڑیوں، تین بینکوں کی شاخوں اور شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر بھی دو سینما گھروں سمیت تین سینماؤں پر حملہ کر کے ان املاک کو آگ لگا دی گئی۔ اس کے علاوہ پی آئی ڈی سی چوک پر نیشنل بینک اور فائیو اسٹار ہوٹل کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
اسلام آباد میں پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے فائرنگ کی
کراچی میں مظاہروں کے آغاز پر ابتدائی طور پر مشتعل افراد نے بلاول ہاؤس کی جانب مارچ کیا جہاں پولیس نے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کر کے انہیں منتشر کیا۔
مظاہرین کا اگلا نشانہ امریکی قونصل خانہ تھا جہاں پولیس نے شدید فائرنگ کی اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
پولیس کی فائرنگ سے کچھ لوگ زخمی ہوئے جبکہ کراچی پولیس کے افسر احمد حسن نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مسلح مظاہرین کی پولیس پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کی سڑک کو بھی دونوں اطراف سے کنٹینروں کی مدد سے بند کیا گیا تھا اور مظاہرین یہاں جمع ہو کر نعرے لگاتے رہے اور انہوں نے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا۔
سندھ رینجرز کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ شہر میں زخمیوں کی تعداد تیس سے چالیس تک ہوسکتی ہے مگر ان میں براہ راست گولی سے زخمی کوئی نہیں ہوا۔
رینجرز کے افسر کے مطابق ان میں آنسو گیس کا گولہ لگنے سے، کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش میں گرنے، پتھراؤ یا توڑ پھوڑ کے دوران زخمی ہونے والے افراد شامل ہیں۔
پشاور/راولپنڈی
پشاور میں بھی گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کے موقع پر مظاہرین نے دو سنیما گھروں کو آگ لگا دی جبکہ بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ بھی کی۔
اس موقع پر فائرنگ سے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی ڈی ایس این جی ویگن کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف علاقوں میں پرتشدد واقعات میں مزید چار افراد ہلاک اور سات پولیس اہلکاروں سمیت چالیس زخمی ہوگئے۔
پشاور میں امریکی قونصلیٹ کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کو کنٹینرز لگا کر جبکہ ملحقہ چھوٹی سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کیا گیا تھا۔
راولپنڈی میں سیدپور روڈ پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ مظاہرین نے آئی جے پرنسپل روڈ پر واقع نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ٹول پلازہ کو آگ لگا دی اور وہاں موجود گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی کی بڑی شاہراہ مری روڈ کو کئی مقامات پر جلتے ٹائروں اور بڑے بڑے پتھروں کے ذریعے بند کر دیا گیا۔
گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کے موقع پر پشاور میں مظاہرین نے دو سنیما گھروں کو آگ لگا دی
راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر بھی پولیس اور دارالحکومت میں داخلے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے اشک آور گیس کا استعمال کیا۔
لاہور
لاہور میں تمام بازار بند اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی۔ مال روڈ پر واقع مسجد شہداء کے باہر مظاہرے ہوئے۔
لاہور میں بھی امریکی قونصل خانوں کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے لیکن مظاہرین نے رکاوٹیں عبور کر لیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، کراچی سمیت پندرہ شہروں میں موبائل سروس بند کر دی تھی جسے بعد ازان جزوی طور پر بحال کر دیا گیا۔
حوالہ: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/09/120921_film_protests_friday_rh.shtml