قاضی واجد الدائم
محفلین
یومِ مئی اور ’’شُھَدَائے‘‘ شکاگو
دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال یومِ مئی منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پس منظر اس کا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی پیشتر، مزدوروں سے بہت زیادہ مشقت لی جاتی تھی اور ان کو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں نے اس ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا اور اوقاتِ کار میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ وقت نے ان کے اس مظاہرے کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے مزدور زخمی ہوئے اور متعدد ہلاک ہوگئے۔ انہی ہلاک شدگان کی یاد منانے کے لئے ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے، مزدور تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرتی ہیں، محنت کشوں کے حقوق کے علمبردار دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور دل کھول کر ’’شہدائے‘‘ شکاگو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہمیں نہ مزدوروں کا دن منانے پر کوئی اعتراض ہے، نہ اس دن تعطیل کرنے کا کوئی شکوہ ہے۔ اگر اعتراض ہے تو اس پر کہ مملکتِ اسلامیہ میں مزدوروں کا دن یکم مئی کو کیوں منایا جاتا ہے---؟ اگر شکوہ ہے تو یہ کہ شکاگو میں مرنے والوںکو ’’شہداء‘‘ کیوں کہا جاتا ہے---؟
اپنے دامن میں سب کچھ ہوتے ہوئے اغیار کی دریوزہ گری کرنا، کیا اعتراض کی بات نہیں ہے---؟ ہمیں شکاگو کے مزدوروں کو اپنا ہیرو بنانے کی کیا ضرورت ہے---؟ شکاگو کے محنت کشوں نے تو صرف ایک صدی قبل احتجاج کیا تھا اور وہ بھی محض اپنے حقوق کے لئے ، نہ کہ دنیا بھر کے مزدوروں کے لئے۔ مزدوروں کے حقوق کا حقیقی نگہبان تو وہ کالی کملی والا ہے، جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔
مزدور تو پھر بھی آزاد شہری ہوتے ہیں، عرب معاشرے میں ایک طبقہ غلاموں کا بھی تھا۔ یہ وہ بدنصیب لوگ تھے، جن کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ یہ ہوتے تو انسان تھے، مگر ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ مالک چاہے تو اپنے غلام کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا دے، چاہے تو اس کے سینے پر بھاری سِل رکھ دے، چاہے تو اس کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کے حوالے کر دے اور کہہ دے کہ اس کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرو--- الامان والحفیظ!
مگر اس مظلوم و مقہور طبقے کی طرف جب شہنشاہ مدینہ کی نگاہ عنایت اٹھی تو بیک جنبش لب ان کو آقاؤں کا بھائی بنا دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ حقیقی بھاؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ارشاد ہؤا
’’تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اس لئے جو کچھ خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلایا کرو، جو کچھ خود پہنو، وہی ان کو بھی پہنایا کرو۔‘‘
اللہ اکبر---! جس ذات گرامی نے اپنے ایک حکم سے بے بس اور بے کس غلاموں کو جانوروں کے زمرے سے نکال کر آزاد انسانوں کا ہمسر کر دیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم شکاگو کے مزدوروں کی طرف کیوں دیکھیں---؟ ہم مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر کے دن کو یومِ مزدور کے طور پر کیوں نہ منائیں، جب سلطان العرب والعجمﷺ ایک عام مزدور کی طرح گردوغبار میں اٹے ہوئے تھے اور پتھر، مٹی اور گارا ڈھو رہے تھے---؟ ہم خندق کی کھدائی کے دن کو یوم محنت کش کی حیثیت سے کیوں نہ منائیں، جب شاہ مدینہ سخت فاقے کے عالم میں کدال چلا رہے تھے اور اپنے محنت کش ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے---؟
غریبوں اور مسکینوں کے اس ملجاء و مأوٰی کو تو مزدوروں کی حق رسانی کا اتنا خیال تھا کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے مزدور سے کام لینے کے بعد اس کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن میں اس کا حریف ہوں گا۔
استغفراللہ---! میدانِ محشر میں شفیع المذنبین، جس کے حریف ہو جائیں، اس کی ذلت و رسوائی اور بدبختی و حرماں نصیبی کا کیا ٹھکانا---!! اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)
کہاں خسارہ اٹھانے والا وہ بدنصیب، جو جہنم کے ہولناک شعلوں میں گھرا ہو اور کہاں حیاتِ ابدی سے سرفراز وہ خوش قسمت کہ جس کو تمام تر نعمتوں سے نواز دینے کے بعد بھی اس کارب اس سے کہتا ہے کہ مانگ اور کیا مانگتا ہے۔
شہادت کا مرتبہ تو اتنا بلند و بالا ہے کہ کافر تو درکنار، جہاد کرنے والا مؤمن بھی اس وقت تک اس کو نہیں پا سکتا، جب تک اس کی نیت مکمل طور پر درست نہ ہو۔ قیامت کے روز متعدد ایسے لوگ پیش ہوں گے، جو مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے مرے ہوں گے اور ان کا خیال ہوگا کہ ہمیں شہداء میں شمار کیا جائے گا، مگر علیم بذات الصدور فرمائے گا۔
اے فلاں! تو نے مال غنیمت کے لالچ میں حصہ لیا تھا--- اے فلاں! تو نے تو شہرت و ناموری حاصل کرنے کے لئے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اے فلاں! تو نے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے لڑائی کی تھی--- اس لئے تم میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہے۔ شہید تو وہ ہوتا ہے، جو صرف میرا کلمہ بلند کرنے کے لئے جہاد میں حصہ لے اور میری راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔
غرضیکہ اگر خلوص نیت نہ ہو تو مسلم کی موت بھی شہادت نہیں ہوتی۔ خواہ وہ میدان جنگ میں ہی کیوں نہ مرا ہو --- پھر شکاگو کے احتجاجی مظاہرے میں مارے جانے والے (کفار) کس طرح ’’شہداء‘‘ کہلا سکتے ہیں؟!
خدارا، ہر کس وناکس اور ایرے غیرے کو شہید کہہ کہہ کر لفظ شہادت اور شہید کی آبرو نہ گنوائیے۔ یہ جرم ہے--- بہت بڑا جرم۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
کتاب ”رونمائیاں“ سے ماخوذ
دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال یومِ مئی منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پس منظر اس کا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی پیشتر، مزدوروں سے بہت زیادہ مشقت لی جاتی تھی اور ان کو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں نے اس ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا اور اوقاتِ کار میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ وقت نے ان کے اس مظاہرے کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے مزدور زخمی ہوئے اور متعدد ہلاک ہوگئے۔ انہی ہلاک شدگان کی یاد منانے کے لئے ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے، مزدور تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرتی ہیں، محنت کشوں کے حقوق کے علمبردار دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور دل کھول کر ’’شہدائے‘‘ شکاگو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہمیں نہ مزدوروں کا دن منانے پر کوئی اعتراض ہے، نہ اس دن تعطیل کرنے کا کوئی شکوہ ہے۔ اگر اعتراض ہے تو اس پر کہ مملکتِ اسلامیہ میں مزدوروں کا دن یکم مئی کو کیوں منایا جاتا ہے---؟ اگر شکوہ ہے تو یہ کہ شکاگو میں مرنے والوںکو ’’شہداء‘‘ کیوں کہا جاتا ہے---؟
اپنے دامن میں سب کچھ ہوتے ہوئے اغیار کی دریوزہ گری کرنا، کیا اعتراض کی بات نہیں ہے---؟ ہمیں شکاگو کے مزدوروں کو اپنا ہیرو بنانے کی کیا ضرورت ہے---؟ شکاگو کے محنت کشوں نے تو صرف ایک صدی قبل احتجاج کیا تھا اور وہ بھی محض اپنے حقوق کے لئے ، نہ کہ دنیا بھر کے مزدوروں کے لئے۔ مزدوروں کے حقوق کا حقیقی نگہبان تو وہ کالی کملی والا ہے، جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔
مزدور تو پھر بھی آزاد شہری ہوتے ہیں، عرب معاشرے میں ایک طبقہ غلاموں کا بھی تھا۔ یہ وہ بدنصیب لوگ تھے، جن کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ یہ ہوتے تو انسان تھے، مگر ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ مالک چاہے تو اپنے غلام کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا دے، چاہے تو اس کے سینے پر بھاری سِل رکھ دے، چاہے تو اس کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کے حوالے کر دے اور کہہ دے کہ اس کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرو--- الامان والحفیظ!
مگر اس مظلوم و مقہور طبقے کی طرف جب شہنشاہ مدینہ کی نگاہ عنایت اٹھی تو بیک جنبش لب ان کو آقاؤں کا بھائی بنا دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ حقیقی بھاؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ارشاد ہؤا
’’تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اس لئے جو کچھ خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلایا کرو، جو کچھ خود پہنو، وہی ان کو بھی پہنایا کرو۔‘‘
اللہ اکبر---! جس ذات گرامی نے اپنے ایک حکم سے بے بس اور بے کس غلاموں کو جانوروں کے زمرے سے نکال کر آزاد انسانوں کا ہمسر کر دیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم شکاگو کے مزدوروں کی طرف کیوں دیکھیں---؟ ہم مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر کے دن کو یومِ مزدور کے طور پر کیوں نہ منائیں، جب سلطان العرب والعجمﷺ ایک عام مزدور کی طرح گردوغبار میں اٹے ہوئے تھے اور پتھر، مٹی اور گارا ڈھو رہے تھے---؟ ہم خندق کی کھدائی کے دن کو یوم محنت کش کی حیثیت سے کیوں نہ منائیں، جب شاہ مدینہ سخت فاقے کے عالم میں کدال چلا رہے تھے اور اپنے محنت کش ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے---؟
غریبوں اور مسکینوں کے اس ملجاء و مأوٰی کو تو مزدوروں کی حق رسانی کا اتنا خیال تھا کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے مزدور سے کام لینے کے بعد اس کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن میں اس کا حریف ہوں گا۔
استغفراللہ---! میدانِ محشر میں شفیع المذنبین، جس کے حریف ہو جائیں، اس کی ذلت و رسوائی اور بدبختی و حرماں نصیبی کا کیا ٹھکانا---!! اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)
کہاں خسارہ اٹھانے والا وہ بدنصیب، جو جہنم کے ہولناک شعلوں میں گھرا ہو اور کہاں حیاتِ ابدی سے سرفراز وہ خوش قسمت کہ جس کو تمام تر نعمتوں سے نواز دینے کے بعد بھی اس کارب اس سے کہتا ہے کہ مانگ اور کیا مانگتا ہے۔
شہادت کا مرتبہ تو اتنا بلند و بالا ہے کہ کافر تو درکنار، جہاد کرنے والا مؤمن بھی اس وقت تک اس کو نہیں پا سکتا، جب تک اس کی نیت مکمل طور پر درست نہ ہو۔ قیامت کے روز متعدد ایسے لوگ پیش ہوں گے، جو مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے مرے ہوں گے اور ان کا خیال ہوگا کہ ہمیں شہداء میں شمار کیا جائے گا، مگر علیم بذات الصدور فرمائے گا۔
اے فلاں! تو نے مال غنیمت کے لالچ میں حصہ لیا تھا--- اے فلاں! تو نے تو شہرت و ناموری حاصل کرنے کے لئے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اے فلاں! تو نے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے لڑائی کی تھی--- اس لئے تم میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہے۔ شہید تو وہ ہوتا ہے، جو صرف میرا کلمہ بلند کرنے کے لئے جہاد میں حصہ لے اور میری راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔
غرضیکہ اگر خلوص نیت نہ ہو تو مسلم کی موت بھی شہادت نہیں ہوتی۔ خواہ وہ میدان جنگ میں ہی کیوں نہ مرا ہو --- پھر شکاگو کے احتجاجی مظاہرے میں مارے جانے والے (کفار) کس طرح ’’شہداء‘‘ کہلا سکتے ہیں؟!
خدارا، ہر کس وناکس اور ایرے غیرے کو شہید کہہ کہہ کر لفظ شہادت اور شہید کی آبرو نہ گنوائیے۔ یہ جرم ہے--- بہت بڑا جرم۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
کتاب ”رونمائیاں“ سے ماخوذ