محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیےآ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیےآ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیےآ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیےآ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیےآ
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیےآ
تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
ان کہنہ عقیدہ کو مٹانے کے لیےآ
عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیےآ
طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیےآ
طالب باغپتی
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیےآ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیےآ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیےآ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیےآ
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیےآ
تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
ان کہنہ عقیدہ کو مٹانے کے لیےآ
عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیےآ
طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیےآ
طالب باغپتی