آصف شفیع
محفلین
جدہ میں مقیم ہمارے دوست اور خوبصورت لہجے کے شاعر محمد مختار علی کی ایک غزل احباب کی نذر:
یوں بیاباں کی طرف مجھ کو سفر کھینچتا ہے
جیسے آوارہء دریا کو بھنور کھینچتا ہے
میں کہ ہوں دھوپ میں بہتا ہوا اک چشمہء صاف
اپنی چھاؤں کی طرف مجھ کو شجر کھینچتا ہے
خلق سے جس کو گلہ ہے نظر اندازی کا
مجھ کو اس شخص کا اندا زِ نظر کھینچتا ہے
صبح سے شام تلک کوزہ گری کرتا ہوں
کیا صعوبت یہ مرا دستِ ہنر کھینچتا ہے
ہےعجب طرح کا سیارہء دل بھی مختار
کتنی دنیاؤں کے غم شام و سحر کھینچتا ہے
یوں بیاباں کی طرف مجھ کو سفر کھینچتا ہے
جیسے آوارہء دریا کو بھنور کھینچتا ہے
میں کہ ہوں دھوپ میں بہتا ہوا اک چشمہء صاف
اپنی چھاؤں کی طرف مجھ کو شجر کھینچتا ہے
خلق سے جس کو گلہ ہے نظر اندازی کا
مجھ کو اس شخص کا اندا زِ نظر کھینچتا ہے
صبح سے شام تلک کوزہ گری کرتا ہوں
کیا صعوبت یہ مرا دستِ ہنر کھینچتا ہے
ہےعجب طرح کا سیارہء دل بھی مختار
کتنی دنیاؤں کے غم شام و سحر کھینچتا ہے