کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہوجائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہوجائے
ناخُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہوجائے
اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہوجائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہوجائے
ہائے اس وقت دلِ زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہوجائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزمِ محبت کا چراغ
تم جو آجاؤ تو کچھ رونقِ محفل ہوجائے
تیری نظریں جو ذرا مجھ پہ کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہوجائے
ہوش اس کے ہیں ،یہ جام اس کا ہے ، تو ہے اس کا
میکدے میں ترے جو شخص بھی غافل ہوجائے
فتنہ گر شوق سے بہزاد کو کردے پامال
اس سے تسکینِ دلی گر تجھے حاصل ہوجائے
(بہزاد لکھنوی)
یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہوجائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہوجائے
ناخُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہوجائے
اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہوجائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہوجائے
ہائے اس وقت دلِ زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہوجائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزمِ محبت کا چراغ
تم جو آجاؤ تو کچھ رونقِ محفل ہوجائے
تیری نظریں جو ذرا مجھ پہ کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہوجائے
ہوش اس کے ہیں ،یہ جام اس کا ہے ، تو ہے اس کا
میکدے میں ترے جو شخص بھی غافل ہوجائے
فتنہ گر شوق سے بہزاد کو کردے پامال
اس سے تسکینِ دلی گر تجھے حاصل ہوجائے
آخری تدوین: