خورشید رضوی یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں ،،، (خورشید رضوی)

نوید صادق

محفلین
غزل
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں

اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے
جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں

اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں

اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں

اہلِ ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
اُن کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں

کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں

تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دئیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(خورشید رضوی)
 
اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں

مبارک ہو آپ ایک اور شکریہ جیت گئے
 

ش زاد

محفلین
کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں

تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دئیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں


واہ واہ

نوید بھائی بہت شکریہ اتنا اچھا کلام پیش کیا آپ نے
 
اصلاحِ سخن کے زمرے کو موثر بنانےکے ضمن میں چند آراء آپ کے گوش گذار کررہا ہوں ۔
اصلاح کی اجازت صرف صلاحیت رکھنے والےاساتذہ کو دی جائے اور اساتذہ کا تعین کسی مناسب طریقے سے کیا جائے۔باقی شعراء اگر چاہیں تو اپنی رائے دیں جسے اصلاح تصور نہ کیا جائے۔
اگر کوئی مبتدی شاعر اصلاح کے لیےغزل لگاتا ہے ۔ فرض کریں کہ پوری غزل میں صرف ایک شعر ہی بہتر ہے۔ اصلاح کرتے ہوئے اساتذہ اگر اس شعر کی تعریف کردیں گے تو شاعر کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ وہ سمجھے گا کہ اس میں اچھا شعر کہنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لیے وہ مزید محنت کرے گا ۔ ورنہ وہ یا تو مایوس ہوکر شاعری چھوڑ دے گا یا سمجھے گا میری شاعری اچھی ہے لیکن اساتذ ہ جان بوجھ کر تنقید کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اردو کی ترقی نہیں ہوگی۔
اسی طرح جن اشعار کی اصلاح کی جائے تو غلطی کی نشاندہی واضح طور پر کی جائے ۔یعنی
غلطی تکنیکی ہے۔
خیال یا بیان بہترنہیں ہے۔
اردو زبان یا گرامر کی غلطی ہے۔
الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں ۔ وغیرہ
اس طرح نئے شاعر وں کو بہتر راہنمائی مل سکتی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں

اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے
جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں

اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں

اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں

اہلِ ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
اُن کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں

کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں

تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں​
 
Top