یوں ساغرِ حیات کا اکرام کیا ہے

یوں ساغرِ حیات کا اکرام کیا ہے
ہر گھونٹ نذرِ تلخئِ ایّام کیا ہے

جب کاسہءِ خرد میں نہ پایا سکوں کہیں
دامن کو ترے بے خودی میں تھام لیا ہے

پھولوں نے چُرائی ترے چہرے سے تازگی
کلیوں نے بھی ہولے سے ترا نام لیا ہے

بادل، ستارے، وقت، وہیں رک گئے اکثر
نازک سا ہاتھ جب بھی ترا تھام لیا ہے

اُبھروں گا کل ضرور، گو اب ڈوب رہا ہوں
جاتے ہوئے سورج نے یہ پیغام دیا ہے

پھر سازِ زندگی پہ نئی دھن کو چھیڑ کر
اِک عزمِ سفر ہم نے سرِ شام کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
وہی بات اس غزل میں بھی ہے محمود کہ دو مختلف بحریں استعمال ہوئی ہیں، اور کچھ مصرعوں میں آدھا ایک بحر میں ہے، دوسرا دوسری بحر میں۔
خیالات حسبِ معمول اچھے ہیں۔
 
Top