یوں مقدر نے اچھالا تھا مجھے ٭ اسد اقبال

یوں مُقدّر نے اُچھالا تھا مُجھے
میرے ہی گھر سے نکالا تھا مُجھے

میں گیا تھا آس لے کر اُس کے پاس
اور اُس نے محض ٹالا تھا مُجھے

تُو نے بھی اے دوست نظریں پھیر لیں
اک ترا ہی تو حوالہ تھا مُجھے

آدمی کو سانپ نے ڈس کر کہا
آپ نے خود ہی تو پالا تھا مُجھے

وار جیسے آپ نے مُجھ پر کِیا
آپ نے تو مار ڈالا تھا مُجھے

زندگی تو جا چکی تھی چھوڑ کر
موت نے آ کر سنبھالا تھا مُجھے

لوگ جس کو عام سمجھے تھے اسد
سارے جگ سے وہ نرالا تھا مُجھے
اسد اقبال
 
Top