سید شہزاد ناصر
محفلین
یُوں تو ہے وحشت جزوِ طبیعت، ربط انہیں کم لوگوں سے
اب تو برس دن بعد بھی انشاؔء ملتے نہیں ہم لوگوں سے
کیوں تجھے ضد ہے وضع نِبھائیں، چاند نہ دیکھیں عید کریں
چُھپ نہ سکے گا، اے دلِ بر! یاں دیدۂ پُر نم لوگوں سے
کیا ہُوا خشت اُٹھا دے ماری یا سرِ دامن نوچ لیا
تم تو دوانے اس کے بہانے ہو چلے برہم لوگوں سے
عشق کریں تو جنُوں کی تُہمت، دور رہیں تو تُو ناراض
اب یہ بتا ہم تُجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے
اب تو برس دن بعد بھی انشاؔء ملتے نہیں ہم لوگوں سے
کیوں تجھے ضد ہے وضع نِبھائیں، چاند نہ دیکھیں عید کریں
چُھپ نہ سکے گا، اے دلِ بر! یاں دیدۂ پُر نم لوگوں سے
کیا ہُوا خشت اُٹھا دے ماری یا سرِ دامن نوچ لیا
تم تو دوانے اس کے بہانے ہو چلے برہم لوگوں سے
عشق کریں تو جنُوں کی تُہمت، دور رہیں تو تُو ناراض
اب یہ بتا ہم تُجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے