یّر کر دیا ہےہلکی پھلکی باتیں برائے اصلاح

الف عین
افاعیل --- مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
---------------------
کرنے سے پیار اُس نے انکار کر دیا ہے
ایسی ہی حرکتوں سے بیمار کر دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتا رہوں گا تجھ سے ہی پیار میں ہمیشہ
جذبات کا تو اپنے اظہار کر دیا ہے
-----------------
تم ہو غریب بندے کیسے میں پیار دے دوں
لالچ نے اُس کو اتنا عیّار کر دیا ہے
---------------------
مانے گا وہ کبھی تو مجھ یقین ہے یہ
اس کے لئے ہی اتنا ایثار کر دیا ہے
-------------------
آنا پڑے گا اُس کو آئے گا لوٹ کر وہ
اُس کی وفا کا اتنا پرچار کر دیا ہے
-------------------------
میرے سوا تو اُس کو کوئی نہ لے کے جائے
اس کے لئے تو رشتہ دشوار کر دیا ہے
------------------
مجھ کو ہے پیار تم سے کہتا ہے آج مجھ سے
اپنی وفا کا مجھ کو حقدار کر دیا ہے
------------------
ارشد بُلا رہا ہے آ جا کبھی تو ملنے
تیرے لئے تو رستہ ہموار کر دیا ہے
--------------------
 

الف عین

لائبریرین
بھائی ارشد، اس کا اصلاح کرنے کا موڈ نہیں۔ رومانی غزلوں میں محض بار بار ایک دو باتیں ہی دہرائی گئی ہیں۔ یہ محض تک بندی لگتی ہے۔ کچھ مختلف خیالات کا اظہار ہو تو سنجیدگی سے اصلاح کرنے کو جی چاہے۔ ورنہ محض یہ فرض ادا ہو گا کہ میں کچھ غلطیوں کی نشاندہی کر دوں اور پھر ان مصرعوں کی تبدیلی کے بعد نئی اغلاط پیدا ہو جائیں! اور چار پانچ بار درستی کے بعد بھی غزل درست تو ہو جائے لیکن اس قابل نہیں کہ مثلاً کوئی ادبی جریدہ قبول کر سکے۔
اب آپ با وزن کہہ سکتے ہیں، موزونیت پیدا ہو گئی ہے طبع میں، تو اب اگلی سٹیج میں داخل ہوں اور متنوع خیالات باندھنے کی کوشش کریں۔
مشق کی وجہ سے میں اب تک اصلاح دے رہا تھا، لیکن اب اس قسم کی اصلاح کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ زیادہ تر عام اغلاط سے آپ واقف ہو ہی گئے ہیں
اچھی شاعری کا مطالعہ خوب کریں۔ اس سے تخیل میں بہتری آئے گی
معذرت اگر برا لگ رہا ہو تو۔
 
محترم آپ میرے استاد ہیں آپ کو معذرت کی ضرورت نہیں۔ میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ ایک ہی روٹین سے ہٹ کر کوئی بہتر چیز پیش کرسکوں
 
Top