معاویہ وقاص
محفلین
یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے
اس کے نشان پا مری جاں تک پہنچ گئے
آخر ہمارے عجز نے پگھلا دیا انہیں
انکار کرتے کرتے وہ ہاں تک پہنچ گئے
گو راہ میں خدا نے بھی روکا کئی جگہ
ہم پھر بھی اس حسیں کے مکاں تک پہنچ گئے
ہم چلتے چلتے راہ حرم پر خدا خبر
کس راستے سے کوئے مغاں تک پہنچ گئے
ان کی نظر اٹھی نہ میرے ہونٹ وا ہوے
پھر بھی دلوں کے حال بیاں تک پہنچ گئے
جی ہارنا سفر کی شریعت نہیں عدم
چلتے رہیں ضرور جہاں تک پہنچ گئے
عبدالحمید عدم