یکم مئی ؛ یومِ مزدور کے حوالے سے دانشور ، شاعر ، ادیب اور مزدور جناب احسان دانش کا ایک اقتباس

ایک دن صوفی عبدالغفور صاحب کہیں سے جلے پھننکے آئے اور آتے ہی ڈارھی کو پھٹکارپھٹکار کر برسنے لگے
"مزدور کو سرمایہ دار اس لیے برا بتاتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہوتی ہے، اور مزدور ضرورت مند ہوتا ہے۔ خدا شاید ہماری طرف اس لیے متوجہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنے دولت مند بندوں کے کاروبار سنبھالنے سے فرصت نہیں ملتی۔ یہی سبب ہے کہ ہماری موت اور زندگی میں امتیاز نہیں ہے۔
بعض وقت جب خدا انسانوں کی زبان سے بولتا ہے اس وقت مزدور مصروف ہوتے ہیں، امراء بے پروا اور شراب میں دھت۔ مگر اس کی ربوبیت کے قربان جائیے۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ لاکھوں پیغمبر ظلم و تشدد کا سدباب کرنے آئے لیکن بیچارے سربلندی سے خدا کو ئی مژدہ نہ سنا سکے۔ تبلیغ کے بے شمار ہنگامے تحریص و تحریف نے بھون کے رکھ دیے اور آج تک کبھی اہل ِ حق کے ماتھوں کا پسینہ خشک نہیں ہوا۔
شیطان کے ایجنٹ کس قدر چست و چالاک اور اپنے کام سے بے خبر ہیں کہ ہر ظالم، جابر، ڈاکو، قاتل اور دشمنِ انسان کی پشت پناہی میں اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے چلے آرہے ہیں۔"
میں نے کہا: "صوفی جی! پھر شیطان ہی کی خلافت قبول کر لیں تو کام چلے گا۔"
صوفی عبدالغفور: "اور اس زندگی کے بعد؟"
"اگر اس زندگی کے بعد کی زندگی کا تصور بھی ہے تو سر جھکا کے چلے چلو، اللہ مالک ہے بولنے کی ضرورت نہیں۔" میں نے جواباََ کہا۔
بہت کم لوگ ہیں جو زندگی کے بے مقصد دھاروں اور بے غیرتی کے چکراتے ہوئے بگولوں کو اس طرح اپنی بغلوں کی محرابوں سے گزار دیتے ہیں اور آتشیں پانی پی کر چلنے والے جمِ غفیر کے قدم پر قدم رکھ کر نہیں چلتے کیونکہ ان کے خاندانی شجرے اور اساسی مواد ان کی نظر میں ہوتا ہے۔ وقت کا پھنپھناتا ہوا سیلاب خود بخود انسانی رکاوٹوں کو ہٹانا اور جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنا اپنا فرض خیال کرتا ہے۔
صوفی صاحب نے اس دن سے اپنا درزی کا کام باقاعدگی سے سنبھال لیا۔ میں نے جب ان سے دریافت کیا تو اس فقرہ کے علاوہ کچھ نہ کہا کہ "سب ڈھونگ ہے۔ سرمایہ دار پر کوئی جادو اثر نہیں کرتا۔ وہ ظالم کا ظالم ہی رہتا ہے اور غریبوں کےخون کا ایثار اسے اور بھی چٹورا بنا دیتا ہے۔ مجھ میں اگر سکت آسکی تو کبھی اس طبقے کو نہیں بخشوں گا۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ مظلوموں اور مقتولوں سے بھی باز پرس ہوگی کہ تم نے قاتلوں اور ظالموں کو ایسا موقع کیوں دیا کہ وہ ظلم کریں اور قتل کا بیڑا اٹھائیں، اور اس کا سدِ باب کیوں نہیں کیا؟
"جہانِ دانش" سے اقتباس
 
Top