یہاں سے چلے ہم، لو جی ۔۔ غزل

بابرنثار

محفلین
یہاں سے چلے ہم، لو جی
زمانہ یہ آتش خُو جی
گھڑی بھر کی مہمان ہے
جوانی تھرکتی لَو جی
کسی اور کو بھی تکو
کبھی ذات سے نکلو جی
گلہ ہی ہو شکوہ ہی ہو
جتایا کرو کچھ تو جی
جوانی نئ ہے ابھی
لگے ہے بہارِ نُو جی
کہی راز کی بات تھی
کئ پھیل چاروں سُو جی
یہ مانا کہ بابر برا
سہی، ہو چکا ہے، تو جی؟
 
Top