یہود کے نقش قدم پہ۔۔۔۔

اجمل خان

محفلین
یہود کے نقش قدم پہ۔۔۔۔

اللہ رب العالمین نے اپنی رحمتِ بیکراں سے اس امت کو ہر خیر اورشر سے آگاہ کرنےاورعروج وزوال کے نشخے بابرکت کتاب قرآن مجید کی صورت میں ہمیشہ کیلئے عطا کیا۔اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ (صحیح مسلم)

" اللہ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت قوموں کو بامعروجتک پہنچائے گا اور بہت سوں کو نیچے گرائے گا۔"(یعنی اس پر عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد ہونگے)۔
امتِ مسلمہ کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرنے کی بدولت دو مرتبہ سرفراز ہوئی یعنی دنیا میں سپر پاور بنی اور اس سے منہ موڑکر دو مرتبہ ہیفسادفی الارض کی مرتکب ہو کر پستی کی گہرائیوں میں جا گری اور آجتک گرتی جا رہی ہے۔

" مسلمانوں نے دو مرتبہ زمین میں فساد مچایا "۔۔۔۔۔ جس کے بارے میں اللہ نے قرآن میں پہلے ہی بتا دیا تھا ۔
آپ کہیں گے ارے صاحب یہ کیا بہکی بہکی باتیں ہیں ؟
دو مرتبہ فساد فی الارض تو یہودیوں نے مچائی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے:

وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿٤﴾ سورة الإسراء
" اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو قطعی طور پر بتا دیا تھا کہ تم زمین میں ضرور دو مرتبہ فساد کرو گے اور (اطاعتِ الٰہی سے) بڑی سرکشی برتو گے"
ہم مسلمان ان آیتوں کو سرسری پڑھتے ہیں اوراسے یہودیوں کے کھاتے میں ڈال کر آگے نکل جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا ایک ایک حرف امتِ مسلمہ کیلئے ہے۔ کاش ہم مسلمان ان آیتوں پر تدبر و تفکر کرکے یہودیوں کی تاریخ سے سبق لیتےتو زفساد فی الارض میں ملوث ہونے اور تباہ ، ذلیل و خوار ہونے سے بچ جاتے۔
جی بالکل صحیح!
اللہ نے ہمیں بتا دیا تھا کہ یہودیوں نے دو مرتبہ فساد مچایا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے کہا تھا:

" تم اپنے سے پہلے کے لوگوں (یہود و نصاری) کی پیروی کروگے ۔"
یہ تنبیہ تھی امتِ مسلمہ کیلئے لیکن ہم مسلمانوں نے اس پر غور نہیں کیا اور نہ فساد فی الارض کی روش سے بچنے کے بجائے ہاتھ در ہاتھ، بالشت در بالشت، یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زمین میں فساد در فساد برپا کیا۔
آئیے یہودیوں کے فسادات و سزائیں اور ان کی پیروی میں امتِ مسلمہ کے فسادات اور سزاؤ کا جائزہ لیتے ہیں ۔
یہودیوں کا پہلا فساد اور اسکیسزا:
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقتیہودیسپر پاور تھے لیکن ان کے بعد فرقوں میں بٹ کر اور آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ ایک سلطنت اسرائیل اور دوسری سلطنت یہودیہ کہلا ئی۔
یہودی تورات کی تعلیمات سے دور ہوتے گئے۔ توحید ِ باری تعالیٰ کی جگہ ہمسایہ قوموں کی مشرکانہ عقائد کو اپنایا۔ امراء و حکمراں نے مشرک عورتوں سے شادی رچائی۔ حکومتی طاقت و ذرائع سے شرک و بدعات کی پرچار عروج کو پہنچی‘ بےشمار فرقے وجود میں آئے‘ خانہ جنگی و خون خرابہ عام ہوا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہودیوں کے اس پہلے فساد کے سدباب کیلئے پے در پے نبی بھیجے لیکن یہ قوم جس شرک و بدعات اور اخلاقی انحطاط کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی ۔ انبیاء علیہ السلام کی بات ماننا تو دور کی بات الٹا انہیں قتل کرتی رہی۔ آخر کار اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اللہ نے اشوریوں کی شکل میں اپنے سخت گیر جنگجو بندوں کو ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا جو ہزاروں اسرائیلیوں کو تہ تیغ و ملک بدر کیا اور باقی بچنے والوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کرکے سلطنت اسرائیل کا نام و نشان ہمیشہ کیلئے مٹا دیا ۔
دوسری طرف سلطنتِ یہودیہ میں جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ علیہم الصلوۃ و السلام کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہودیہ کے بنی اسرائیل بُت پرستی اور بد اخلاقیوں و بغاوت سے باز نہ آئے تو اللہ نے بابل کےبادشاہ بخت نصر کے ذریعے انہیں سخت سزا دی۔ بخت نصر ایک سخت حملہ کر کے سلطنتِ یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑےشہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو جلاوطن کرکے تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہو
امت مسلمہ کا پہلا فساد اور اسکی سزا :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت سپر پاور بنی لیکن جلد قرآنی تعلیمات سے دور ہوتے ہوئے بیرونی سازشوں کے تحت اپنے حکمرانوں کے قتل‘ خانہ جنگی‘ فرقہ واریت اور اخلاقی انحطاط کے زد میں آکر تنزلی کا شکار ہونے لگی۔ اگر یہودی ابنیاء علیہم السلوۃ و السلام کے قاتل ٹھہرے تو امت مسلمہ اصحابِ رسول اور امت کے اچھے لوگوں کے قتل میں ملوث ہوئی۔ پھر بھی چیونکہ زیادہ تر لوگ صاحبِ قرآن ‘ موحد اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے خانہ جنگی و دیگر فسادات کے باوجود امت عروج پہ رہی ۔ اس بام عروج میں امتِ مسلمہ کی بھی ( یہودیوں کی طرح) دو سلطنتیں تھی۔ ایک عرب اور اسکے ملحقہ علاقے میں ’ سلطنت اسلامیہ‘ اور دوسری یورپ میں ’ سلطنت اندلسیہ‘۔
جب پہلی بارامت مسلمہ میں فساد (فرقہ پرستی ‘ خانہ جنگی اور اخلاقی انحطاط ) عروج پر پہنچا تو اللہ نے اپنے ایسے سخت جنگ جُو بندے بھیجے جو ایک طرف تاتار کے روپ میں اسلامی سلطنت کی دارلخلافہ بغداد اور ہر چھوٹے بڑے شہر کے لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا تو دوسری طرف نصرانیوں کے روپ میں سلطنت اندلسیہ کو صفحۂ ہستی سے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔
(آجکل چیونکہ لوگوں لمبی مضمون نہیں پڑھتے اس لئے یہود اور مسلمانوں کے فسادات و سزا ئیں بہت اختصار اً تحریر کی گئی ہے‘ اصل مقصد مماثلت دکھانا اور اس سے سبق لینا ہے۔صاحبِ ذوق تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں)
یہ تھا امتِ مسلمہ کا پہلا فساد جو بنی اسرائیل کے پہلے فساد سے پوری طرح مماثلت رکھتی ہے، اور اسکی سزا بھی بالکل اسی طرح ملی جیسی یہودیوں کو ملی تھی۔
جس کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے ہی کا فرما دیا تھا جو قرآن میں کچھ یوں ہے:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا
" چنانچہ جب پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو ہم نے (تمہاری سرکوبی کیلئے) اپنے کچھ ایسے سخت جنگجو بندے بھیج دیئے جو تمہاری آبادیوں میں چن چن کر تمہیں مارا اور (اللہ) کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔" (سورة الإسراء آیت نمر۔5)
یہود اور امتِ مسلمہ کے فساد اور سزا کی اس مماثلت سے جب ہم یہ کہتے کہ امتِ مسلمہ کو تنبیہ کرنے کیلئے ان آیتوں کو قرآن کا حصہ بنایا گیا تھا ‘ کیا کوئی ہے جو اس کا انکار کردے۔خیر انکار کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔امت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو قرآن کا بٹوارا کرتے ہیں۔
آج اگر وحدتِ امت کیلئے‘ امت کی اصلاح کیلئے ‘ شرک ا رو بدعات کی روک تھام کیلئے قرآن کی کوئی آیت پیش کی جائے تو جھٹ کہہ اٹھتے ہیں :
۔۔۔ یہ آیت تو کفارِ مکہ کیلئے نازل ہوئی تھی
۔۔۔ یہ تو مشرکین کیلئے
۔۔۔ یہ تو منافقوں کیلئے
۔۔۔ یہ تو یہود کیلئے
۔۔۔ یہ تو نصاریٰ کیلئے
۔۔۔ آپ کفار‘ مشرکین ‘ یہود و نصاریٰ کے بارے نازل کردہ آیتوں کو مسلمانوں پہ فٹ کرتے ہیں ‘ آپ تو امت میں تفرقہ چاہتے ہیں۔یعنی قرآن مسلمانوں کیلئے نہیں ۔۔۔بلکہ قرآن تو کفار‘ مشرکین اور یہود و نصاریٰ کیلئے تھا اور ہے۔
۔۔۔ آپ امت میں تفرقہ چاہتے ہیں۔
افسوس صد افسوس ! آج قرآن وسنتسے دلائل دینے والے تو فساد و تفرقہ چاہتے ہیںاورقرآن و سنت کو چھوڑنے والے امت کو شرک و بدعت کی راہ پہ لےجانے والےوحدتِ امت کے خواہاں ٹہرے۔
خواہانانِ وحدتِ امت ! آئے قرآن کو حَکم مانئے ! جس طرح حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے قرآن کو حَکم مان کر امت کو فساد سے نکالا تھا اسی طرح اپنے تنازعات طے کیجئے اور امت کو فساد سے نکالئے‘ امت کو قرآن سے جوڑیئے ‘ پھر اللہ کی نصرت آئے گی اور یہ امت ایک بار پھر بامِ عروج پہ پہنچے گی۔
ورنہ وہ دن دور نہیں کہ یہودیوں کے طرح مسلمانوں کو بھی کوئی گیس چیمبر میں ڈال کر ان کی چربی سے ’ مسلم سَوپ ‘ بنائے کیونکہ یہودیوں کے نقش قدم پہ چلنے والی اس امت کو سزا بھی یہودیوں جیسا ملتا ہے۔
اور اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّ۔هِ تَبْدِيلًا

(یہود اور امتِ مسلمہ کے دوسر ے فساد اور سزا کی داستان اور اسکی مماثلت اگلی قسط میں)
 
Top