کاشفی
محفلین
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
یہی سوزِ دل ہے تو محشر میں جَل کر
جہنم اُگل دے گا مجھ کو نگل کر
جو شامِ شبِ ہجر دیکھی تو سمجھے
قضا سر پر آئی ہے صورت بدل کر
یہ میری طرف پاؤں محفل میں کیسے؟
ذرا آدمیت سے بیٹھو سنبھل کر
بشر کیوں نہ ہو بے وطن ہو کے مضطر
تڑپتی ہے، دریا سے مچھلی نکل کر
مرا دل بھی آئینہ ِ انجمن ہے
دکھاتا ہے سو رنگ صورت بدل کر
قدم جب خوشی سے درِ دل پہ رکھا
صدا غم نے دی دیکھ ظالم سنبھل کر
نکالا جو پیرِمغاں نے تو کیا غم
بُلا لے گی پھر دخترِ رز مچل کر
یہی سوزِ غم ہے تو اشکوں کی صورت
کسی روز بہہ جائے گا دل پِگھل کر
اُٹھا اے دل ، آنکھوں سے اتنا نہ طوفان
کوئیں بیٹھ جاتے ہیں اکثر اُبل کر
امیر، اہلِ مسجد سے اظہارِ تقویٰ؟
ابھی آئے ہو میکدے سے نکل کر
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
یہی سوزِ دل ہے تو محشر میں جَل کر
جہنم اُگل دے گا مجھ کو نگل کر
جو شامِ شبِ ہجر دیکھی تو سمجھے
قضا سر پر آئی ہے صورت بدل کر
یہ میری طرف پاؤں محفل میں کیسے؟
ذرا آدمیت سے بیٹھو سنبھل کر
بشر کیوں نہ ہو بے وطن ہو کے مضطر
تڑپتی ہے، دریا سے مچھلی نکل کر
مرا دل بھی آئینہ ِ انجمن ہے
دکھاتا ہے سو رنگ صورت بدل کر
قدم جب خوشی سے درِ دل پہ رکھا
صدا غم نے دی دیکھ ظالم سنبھل کر
نکالا جو پیرِمغاں نے تو کیا غم
بُلا لے گی پھر دخترِ رز مچل کر
یہی سوزِ غم ہے تو اشکوں کی صورت
کسی روز بہہ جائے گا دل پِگھل کر
اُٹھا اے دل ، آنکھوں سے اتنا نہ طوفان
کوئیں بیٹھ جاتے ہیں اکثر اُبل کر
امیر، اہلِ مسجد سے اظہارِ تقویٰ؟
ابھی آئے ہو میکدے سے نکل کر