با ادب
محفلین
یہی مے کدے کا نظام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب اور کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اسکا کوئی کرے گا کیا ، یہ تو میکدے کا نظام ہے
جگرمراد آبادی کی اس غزل کو بے شمار مرتبہ سنا اور ہر بار اسکی تاثیر کو پہلے سے زیادہ محسوس کیا ۔
زندگی میں جو لوگ بڑے بڑے کام کرنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی قناعت پسند نہیں ہوتے ۔ قناعت پسندی بسا اوقات آپ کو آگے بڑھنے نہیں دیتی آپکا راستہ روک کے کھڑی ہو جاتی ہے ۔
میری زندگی کے اسی ایک پہلو کو تاریک کہیئے یا روشن لیکن میں ہر بات پہ جلد مطمئن ہوجانے والوں میں سے ہوں ۔ یہ بیماری بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ میں خود پہ ظلم روا رکھنے والوں کو بھی انسان ہونے کا مارجن دے کہ گلے شکوے دل سے مٹا دیتی ہوں ۔
میرے گھر والے میرے اس رویے سے نالاں و شاکی رہتے ہیں ۔ کہ وہاں اسٹینڈ کیوں نہیں لیا چھوڑ کیوں دی وہ بات ۔ انھیں یہ سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا کوئی بڑی بات تھی ۔ جانے دیجیے
جانے دینا ہی مشکل کام ہے ۔ پچھلے واقعے پہ گرد ڈال کے اگے بڑھ جانا میرے نزدیک زندگی ہے ۔
ایسا ہر گز نہیں کہ میں کوئی بے حس قسم کی انسان ہوں ۔ بلکہ شدید حساسیت کا مارا کہیے ۔ لیکن دو چیزیں ہمیشہ زندگی میں آگے بڑھنے کا کام دیتی ہیں ۔
واویلا کرنے کی بجائے حل ڈھونڈنا
چیزوں کو منفی اور مثبت دونوں تناظر میں دیکھنا
آپ سوچ رہے ہونگے کہ انکی رام کتھا ہم کیوں سنیں ؟؟ اور خاتون کو آخر ایسا کونسا مرض لاحق ہوگیا ہے کہ کہانی سنانے بیٹھ گئی ہیں ۔
تو آئیے مرض پہ بات کرتے ہیں ۔
ہم کتابوں میں پڑھا کرتے ہیں
"دنیا آزمائش کی جا ہے "
اور پڑھنے کے بعد ہم اس حقیقت کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ یہاں تو واقعی ایک امتحان دینے آئے ہیں ۔
لوگ زندگی میں برداشت کیے گئے مصائب کو اسکی شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ اور کافی عرصے تک اسکے غم کو دل سے لگائے رکھتے ہیں ۔ زندگی کے سفر میں جہاں جہاں تک جاتے ہیں اس غم کو ساتھ لیے پھرتے ہیں اور جب انھیں لگتا ہے کہ اب یہ انکی برداشت سے باہر ہو گیا ہے تو اسکا واویلا مچا دیتے ہیں ۔
اور تب تک مچائے رکھتے ہیں جب تک لوگ انکے غم زدہ ہونے کا یقین نہ کر لیں ۔
ہماری ایک عزیز کی بیٹی چار نہایت خوبصورت بچوں کی ماں شوہر سے کوئی لڑائی ہوئی گھر آکے بیٹھ گئیں ۔ہر وقت غم زدہ رہتیں ، آئے دن لوگ آکے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے
ہائے بے چاری کا گھر اجڑ گیا ۔
بے چاری دن بہ دن مظلوم ہوئی جاتی تھی ۔
ان کے صحت مند خوبصورت بچے سارا دن نانی کے صحن میں کھیلتے کودتے ۔ صبح اٹھ کے اسکول جاتے واپس آکے اپنی روزمرہ روٹین نبھاتے ۔ اور ماں غم و اندوہ کی تصویر بنی پھرتیں ۔
ایک دن میں نے ان سے کہا ۔ آپ سے زیادہ خوش قسمت خاتون اس روئے زمین پہ دوسری کوئی نہیں ہیں ۔
باقاعدہ ناراض ہوگئیں کہ میں انکے زخموں پہ مرہم چھڑک رہی ہوں ۔
میں نے عرض گزاری ۔
آپ جانتی ہیں آپکی خالہ اپنے بڑے سے گھر میں بالکل اکیلی رہتی ہیں
"اس بات کا مجھ سے کیا تعلق ہے ؟؟ "
کبھی جیلوں کا دورہ کیاہے آپ نے ؟؟
"میرا دماغ خراب ہے کیا جو میں جیلوں کا دورہ کرونگی ؟"
میں نے کیا ہے ۔ جانتی ہیں جیل کیسی ہوتی ہے ؟؟؟
"کم از کم میرے حال سے اچھی ہی ہوتی ہوگی "
بہت اچھی ! جیل میں آپ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے ۔ اپنی مرضی کا کھانا نہیں سکتے ۔ سب چھوڑیے ، وہاں
جب شام اترتی ہے تو دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔
جیلوں میں بہت سے بے گناہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں اپنے گھر والوں سے دور وہاں زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتے ہیں ۔
بعض خواتین اتنی مظلوم ہوتی ہیں کہ آپ کی سوچ بھی اس درد اس تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتی ۔
انکے شوہروں نے ان پہ الزامات لگا کے گھر سے نکال دیا ہوتا ہے ۔ انکے اپنے والدین انکا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ وہ جھوٹے مقدمات میں اس بری طرح پھنسائی جاتی ہیں کہ انھیں خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی صفائی کیسے پیش کریں ۔
ان کے بچے نہ صرف یہ کہ ان سے چھین لیے جاتے ہیں بلکہ انھیں اپنی اولاد کے لیے تمام عمر ایک ایسی گالی بنا دیا جاتا ہےکہ اولاد انکا نام سننے کی روادار نہیں ہوتی ۔
لیکن وہ بھی زندہ ہیں ۔
"ہاں زندہ ہیں لیکن یہ بات یاد رکھو کہ وہ ایک درد بھری زندگی گزار رہی ہیں "
بے شک وہ.درد بھری زندگی گزار رہی ہیں ۔ لیکن کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپ. ان سے کئی گنا کم تکلیف میں مبتلا ہیں؟ ؟
آپ کا گھر ہے بچے ہیں آپ والدین آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ماشاءاللہ سے تعلیم یافتہ ہیں ۔ میاں فقط ناراض ہوئے ہیں امید ہے جلد مان بھی جائیں گے ۔
لیکن اس ایک چھوٹی سی آزمائش پہ آپ نے کس قدر واویلا مچا رکھا ہے ۔ آپ شکر کیوں نہیں ادا کرتیں کہ آپ اس سے بڑھ کر کسی بری حالت میں نہیں ہیں ۔؟؟
"لیکن میں بے قصور ہوں ۔ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔"
بلاشبہ ہو رہی ہوگی ۔ لیکن آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آپ دنیا میں آئیں اور کسی بھی مصیبت کو برداشت کیے بغیر ہی دنیا سے چلی جائیں گی ؟؟؟
آپکو بالکل کسی بھی طریقے سے یہاں ٹیسٹ نہیں کیا جائے گا ؟؟؟
یہاں آنے والے ہر شخص کا امتحان ہوگا پیاری ، ہر شخص کا
کبھی وہ مال سے آزمائے جائیں گے ، کبھی اولاد سے کبھی اپنی جانوں سے ۔
وہ جو ابدی خوشی کی جگہ ہے نا اسکا نام جنت ہے اور جانتی ہیں وہ بڑی مہنگی ہے ۔
بچے کو ڈاکٹر بناتے ہیں نا ہم ۔
کتنا شوق ہوتا ہے ہماری بچی میڈیکل پڑھے ۔ بچی میٹرک کی تیاری میں جان لڑا دیتی ہے کہ اعلی نمبروں سے پاس ہو ۔ پھر ایف ایس سی میں اسے دن رات کا ہوش نہیں رہتا ۔ ایٹا کا ٹیسٹ میڈیکل کے بچوں کے لیے وبال جان ہے ۔ میڈیکل کی مشکل پڑھائی ۔ اور وہ ڈاکٹر کا تمغہ سجانے تک ان سب مشکلوں سے گزرنے کے لیئے جان لڑا دیتے ہیں ۔
تو وہ جو ابدی خوشیوں والی جنت ہے نا اللہ کہتا ہے وہ تمھارے نفسوں کے عوض ہے ۔
یہ تم اس لیے کہہ رہی ہو کہ تم خود اس تکلیف کو برداشت نہیں کر رہی ۔
یہ اس لایعنی بحث کا حاصل تھا ۔ جب آپ خود کو خود اپنی مصیبت سے نہیں نکالنا چاہتے تو غم میں مبتلا رہنے کے لیے ہزاروں جواز ڈھونڈ لیتے ہیں ۔
زندگی میں ہمیں کچھ تکالیف برداشت کرنی ہونگی ۔ یا تو صبر کر کے یا ان پہ واویلا مچا کے ۔ کسی بھی طرح
تو کیوں نہ اپنے حصے کی تکلیف کو خاموشی سے برداشت کر لیں ۔ ہر وقت دوسروں کو مورد الزام ٹہرانے کی بجائے کبھی خوداپنے رویے پہ غور کر لیں اور اگر پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا تو صبر کے گھونٹ پی کر اس درد سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ درد کا اظہار کرنا ہی اصل کتھارسس ہے ۔
ایسا ممکن ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ ضرور جان رکھیے کہ جب یہ اظہار حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو جان لیں کہ آپ نے خواہ مخواہ کا پاکھنڈ مچا رکھا ہے ۔ لوگوں کو اس قدر تسلیاں دلاسے مت دیں کہ وہ اپنے زور بازو پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ۔
بلکہ انھیں ہمت دیجیے کہ ہر شخص کو اپنے حصے کی تکلیف خود ہی برداشت کرنی ہے ۔ البتہ اس تکلیف کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے اپنی طاقت بنایا جائے ۔
وہ ہزاروں لوگ جو زندگی میں نہایت برے ادوار سے گزرے اور آخر کار کامیاب کہلائے وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی ناکامیوں پہ بیٹھ کر تمام عمر آنسو بہانے کا کام نہیں کیا ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایسی دنیا ہے جہاں ہم اگر اچھا بولنے کے فن سے تھوڑے بہت بھی آگاہ ہیں تو بہت جلد ہم اپنی غلطیوں کے لیے تاویلیں تلاش کر کے اپنے حامیین پیدا کر لیتے ہیں ۔ اور جب سینکڑوں لوگ آپکی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں اور آپ ایک ادائے دلبرانہ سے انکے درمیان خود کو راجہ اندر سمجھتے ہوں تو جان لیجیے کہ اب آپکی اصلاح ناممکن ہو چکی ہے ۔ کیونکہ آپ نے اپنی غلطیوں کو میڈل بنا کر سینے پہ سجا لیا ہے ۔
غلطیوں کو ایک ہی دفعہ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ تب تک ہمارے اندر ڈر رہتا ہے کہ لوگ ہمیں کوئی غلط انسان نہ سمجھیں اور ہماری عزت میں کمی واقع نہ ہو ۔
لیکن جب اس غلطی کو ہماری شان کہا جانے لگے تو ہم.پہلے سے بڑھ کر غلطیوں میں نڈر اور دلیر ہوجاتے ہیں ۔
میں روتی بلبلاتی کہانی سنوں کہ جب میں بھوک سے بے حال.تھی تو میں نے چوری کی ۔
آپ میں سے چند ہمدرد میرے دکھ پہ آنسو بہائیں گے ۔ چند نظام کو کوسیں گے اور باقی چند مجھے ٹشو پیش کریں گے ۔
لیکن اگر کوئی ایک یہ کہہ دے کہ چوری ایک برا فعل ہے آپ کوئی اور بھی راہ اختیار کر سکتی تھیں تو وہ سبھی آنسو پونچھنے والے گندے ٹماٹر اس ایک پہ پھینکنے کا عمل شروع کر دیں گے ۔
لیکن آپکو یقین ہونا چاہیے کہ جو بھرے مجمع میں سچ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور باطل کو باطل کہہ رہا ہے تو وہی آپکا خیر خواہ ہے ۔
لیکن تالیوں کی گونج اور واہ واہ کی آوازوں میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آئینے میں اپنا برا روپ دیکھ کے توبہ تائب ہو ۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف کر نے کے بعد اس غلطی کے نقصانات گنوا کے باقیوں کو اس سے روکنے کی ترغیب دے ۔
دنیا میں سبھی کچھ آپکے لیے نہیں ہے ۔ لہذا جو چیزیں میسر نہیں اور اگر حالات موافق نہیں تو جان لیجیے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب
اور کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اسکا کوئی کرے گا کیا ،
یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہی میکدے کا نظام ہے کہ اپنی آزمائش کو وقار اور صبر سے برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیجیے ۔ واویلا مسائل کا حل نہیں
#سمیراامام
#یہی_میکدے_کا_نظام_ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب اور کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اسکا کوئی کرے گا کیا ، یہ تو میکدے کا نظام ہے
جگرمراد آبادی کی اس غزل کو بے شمار مرتبہ سنا اور ہر بار اسکی تاثیر کو پہلے سے زیادہ محسوس کیا ۔
زندگی میں جو لوگ بڑے بڑے کام کرنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی قناعت پسند نہیں ہوتے ۔ قناعت پسندی بسا اوقات آپ کو آگے بڑھنے نہیں دیتی آپکا راستہ روک کے کھڑی ہو جاتی ہے ۔
میری زندگی کے اسی ایک پہلو کو تاریک کہیئے یا روشن لیکن میں ہر بات پہ جلد مطمئن ہوجانے والوں میں سے ہوں ۔ یہ بیماری بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ میں خود پہ ظلم روا رکھنے والوں کو بھی انسان ہونے کا مارجن دے کہ گلے شکوے دل سے مٹا دیتی ہوں ۔
میرے گھر والے میرے اس رویے سے نالاں و شاکی رہتے ہیں ۔ کہ وہاں اسٹینڈ کیوں نہیں لیا چھوڑ کیوں دی وہ بات ۔ انھیں یہ سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا کوئی بڑی بات تھی ۔ جانے دیجیے
جانے دینا ہی مشکل کام ہے ۔ پچھلے واقعے پہ گرد ڈال کے اگے بڑھ جانا میرے نزدیک زندگی ہے ۔
ایسا ہر گز نہیں کہ میں کوئی بے حس قسم کی انسان ہوں ۔ بلکہ شدید حساسیت کا مارا کہیے ۔ لیکن دو چیزیں ہمیشہ زندگی میں آگے بڑھنے کا کام دیتی ہیں ۔
واویلا کرنے کی بجائے حل ڈھونڈنا
چیزوں کو منفی اور مثبت دونوں تناظر میں دیکھنا
آپ سوچ رہے ہونگے کہ انکی رام کتھا ہم کیوں سنیں ؟؟ اور خاتون کو آخر ایسا کونسا مرض لاحق ہوگیا ہے کہ کہانی سنانے بیٹھ گئی ہیں ۔
تو آئیے مرض پہ بات کرتے ہیں ۔
ہم کتابوں میں پڑھا کرتے ہیں
"دنیا آزمائش کی جا ہے "
اور پڑھنے کے بعد ہم اس حقیقت کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ یہاں تو واقعی ایک امتحان دینے آئے ہیں ۔
لوگ زندگی میں برداشت کیے گئے مصائب کو اسکی شدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ اور کافی عرصے تک اسکے غم کو دل سے لگائے رکھتے ہیں ۔ زندگی کے سفر میں جہاں جہاں تک جاتے ہیں اس غم کو ساتھ لیے پھرتے ہیں اور جب انھیں لگتا ہے کہ اب یہ انکی برداشت سے باہر ہو گیا ہے تو اسکا واویلا مچا دیتے ہیں ۔
اور تب تک مچائے رکھتے ہیں جب تک لوگ انکے غم زدہ ہونے کا یقین نہ کر لیں ۔
ہماری ایک عزیز کی بیٹی چار نہایت خوبصورت بچوں کی ماں شوہر سے کوئی لڑائی ہوئی گھر آکے بیٹھ گئیں ۔ہر وقت غم زدہ رہتیں ، آئے دن لوگ آکے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے
ہائے بے چاری کا گھر اجڑ گیا ۔
بے چاری دن بہ دن مظلوم ہوئی جاتی تھی ۔
ان کے صحت مند خوبصورت بچے سارا دن نانی کے صحن میں کھیلتے کودتے ۔ صبح اٹھ کے اسکول جاتے واپس آکے اپنی روزمرہ روٹین نبھاتے ۔ اور ماں غم و اندوہ کی تصویر بنی پھرتیں ۔
ایک دن میں نے ان سے کہا ۔ آپ سے زیادہ خوش قسمت خاتون اس روئے زمین پہ دوسری کوئی نہیں ہیں ۔
باقاعدہ ناراض ہوگئیں کہ میں انکے زخموں پہ مرہم چھڑک رہی ہوں ۔
میں نے عرض گزاری ۔
آپ جانتی ہیں آپکی خالہ اپنے بڑے سے گھر میں بالکل اکیلی رہتی ہیں
"اس بات کا مجھ سے کیا تعلق ہے ؟؟ "
کبھی جیلوں کا دورہ کیاہے آپ نے ؟؟
"میرا دماغ خراب ہے کیا جو میں جیلوں کا دورہ کرونگی ؟"
میں نے کیا ہے ۔ جانتی ہیں جیل کیسی ہوتی ہے ؟؟؟
"کم از کم میرے حال سے اچھی ہی ہوتی ہوگی "
بہت اچھی ! جیل میں آپ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے ۔ اپنی مرضی کا کھانا نہیں سکتے ۔ سب چھوڑیے ، وہاں
جب شام اترتی ہے تو دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔
جیلوں میں بہت سے بے گناہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں اپنے گھر والوں سے دور وہاں زندگی گزارنے پہ مجبور ہوتے ہیں ۔
بعض خواتین اتنی مظلوم ہوتی ہیں کہ آپ کی سوچ بھی اس درد اس تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتی ۔
انکے شوہروں نے ان پہ الزامات لگا کے گھر سے نکال دیا ہوتا ہے ۔ انکے اپنے والدین انکا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ وہ جھوٹے مقدمات میں اس بری طرح پھنسائی جاتی ہیں کہ انھیں خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی صفائی کیسے پیش کریں ۔
ان کے بچے نہ صرف یہ کہ ان سے چھین لیے جاتے ہیں بلکہ انھیں اپنی اولاد کے لیے تمام عمر ایک ایسی گالی بنا دیا جاتا ہےکہ اولاد انکا نام سننے کی روادار نہیں ہوتی ۔
لیکن وہ بھی زندہ ہیں ۔
"ہاں زندہ ہیں لیکن یہ بات یاد رکھو کہ وہ ایک درد بھری زندگی گزار رہی ہیں "
بے شک وہ.درد بھری زندگی گزار رہی ہیں ۔ لیکن کیا آپکو نہیں لگتا کہ آپ. ان سے کئی گنا کم تکلیف میں مبتلا ہیں؟ ؟
آپ کا گھر ہے بچے ہیں آپ والدین آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ماشاءاللہ سے تعلیم یافتہ ہیں ۔ میاں فقط ناراض ہوئے ہیں امید ہے جلد مان بھی جائیں گے ۔
لیکن اس ایک چھوٹی سی آزمائش پہ آپ نے کس قدر واویلا مچا رکھا ہے ۔ آپ شکر کیوں نہیں ادا کرتیں کہ آپ اس سے بڑھ کر کسی بری حالت میں نہیں ہیں ۔؟؟
"لیکن میں بے قصور ہوں ۔ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے ۔"
بلاشبہ ہو رہی ہوگی ۔ لیکن آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آپ دنیا میں آئیں اور کسی بھی مصیبت کو برداشت کیے بغیر ہی دنیا سے چلی جائیں گی ؟؟؟
آپکو بالکل کسی بھی طریقے سے یہاں ٹیسٹ نہیں کیا جائے گا ؟؟؟
یہاں آنے والے ہر شخص کا امتحان ہوگا پیاری ، ہر شخص کا
کبھی وہ مال سے آزمائے جائیں گے ، کبھی اولاد سے کبھی اپنی جانوں سے ۔
وہ جو ابدی خوشی کی جگہ ہے نا اسکا نام جنت ہے اور جانتی ہیں وہ بڑی مہنگی ہے ۔
بچے کو ڈاکٹر بناتے ہیں نا ہم ۔
کتنا شوق ہوتا ہے ہماری بچی میڈیکل پڑھے ۔ بچی میٹرک کی تیاری میں جان لڑا دیتی ہے کہ اعلی نمبروں سے پاس ہو ۔ پھر ایف ایس سی میں اسے دن رات کا ہوش نہیں رہتا ۔ ایٹا کا ٹیسٹ میڈیکل کے بچوں کے لیے وبال جان ہے ۔ میڈیکل کی مشکل پڑھائی ۔ اور وہ ڈاکٹر کا تمغہ سجانے تک ان سب مشکلوں سے گزرنے کے لیئے جان لڑا دیتے ہیں ۔
تو وہ جو ابدی خوشیوں والی جنت ہے نا اللہ کہتا ہے وہ تمھارے نفسوں کے عوض ہے ۔
یہ تم اس لیے کہہ رہی ہو کہ تم خود اس تکلیف کو برداشت نہیں کر رہی ۔
یہ اس لایعنی بحث کا حاصل تھا ۔ جب آپ خود کو خود اپنی مصیبت سے نہیں نکالنا چاہتے تو غم میں مبتلا رہنے کے لیے ہزاروں جواز ڈھونڈ لیتے ہیں ۔
زندگی میں ہمیں کچھ تکالیف برداشت کرنی ہونگی ۔ یا تو صبر کر کے یا ان پہ واویلا مچا کے ۔ کسی بھی طرح
تو کیوں نہ اپنے حصے کی تکلیف کو خاموشی سے برداشت کر لیں ۔ ہر وقت دوسروں کو مورد الزام ٹہرانے کی بجائے کبھی خوداپنے رویے پہ غور کر لیں اور اگر پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا تو صبر کے گھونٹ پی کر اس درد سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ درد کا اظہار کرنا ہی اصل کتھارسس ہے ۔
ایسا ممکن ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ ضرور جان رکھیے کہ جب یہ اظہار حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو جان لیں کہ آپ نے خواہ مخواہ کا پاکھنڈ مچا رکھا ہے ۔ لوگوں کو اس قدر تسلیاں دلاسے مت دیں کہ وہ اپنے زور بازو پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ۔
بلکہ انھیں ہمت دیجیے کہ ہر شخص کو اپنے حصے کی تکلیف خود ہی برداشت کرنی ہے ۔ البتہ اس تکلیف کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے اپنی طاقت بنایا جائے ۔
وہ ہزاروں لوگ جو زندگی میں نہایت برے ادوار سے گزرے اور آخر کار کامیاب کہلائے وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی ناکامیوں پہ بیٹھ کر تمام عمر آنسو بہانے کا کام نہیں کیا ۔
سوشل میڈیا کی دنیا ایسی دنیا ہے جہاں ہم اگر اچھا بولنے کے فن سے تھوڑے بہت بھی آگاہ ہیں تو بہت جلد ہم اپنی غلطیوں کے لیے تاویلیں تلاش کر کے اپنے حامیین پیدا کر لیتے ہیں ۔ اور جب سینکڑوں لوگ آپکی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں اور آپ ایک ادائے دلبرانہ سے انکے درمیان خود کو راجہ اندر سمجھتے ہوں تو جان لیجیے کہ اب آپکی اصلاح ناممکن ہو چکی ہے ۔ کیونکہ آپ نے اپنی غلطیوں کو میڈل بنا کر سینے پہ سجا لیا ہے ۔
غلطیوں کو ایک ہی دفعہ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ تب تک ہمارے اندر ڈر رہتا ہے کہ لوگ ہمیں کوئی غلط انسان نہ سمجھیں اور ہماری عزت میں کمی واقع نہ ہو ۔
لیکن جب اس غلطی کو ہماری شان کہا جانے لگے تو ہم.پہلے سے بڑھ کر غلطیوں میں نڈر اور دلیر ہوجاتے ہیں ۔
میں روتی بلبلاتی کہانی سنوں کہ جب میں بھوک سے بے حال.تھی تو میں نے چوری کی ۔
آپ میں سے چند ہمدرد میرے دکھ پہ آنسو بہائیں گے ۔ چند نظام کو کوسیں گے اور باقی چند مجھے ٹشو پیش کریں گے ۔
لیکن اگر کوئی ایک یہ کہہ دے کہ چوری ایک برا فعل ہے آپ کوئی اور بھی راہ اختیار کر سکتی تھیں تو وہ سبھی آنسو پونچھنے والے گندے ٹماٹر اس ایک پہ پھینکنے کا عمل شروع کر دیں گے ۔
لیکن آپکو یقین ہونا چاہیے کہ جو بھرے مجمع میں سچ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور باطل کو باطل کہہ رہا ہے تو وہی آپکا خیر خواہ ہے ۔
لیکن تالیوں کی گونج اور واہ واہ کی آوازوں میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آئینے میں اپنا برا روپ دیکھ کے توبہ تائب ہو ۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف کر نے کے بعد اس غلطی کے نقصانات گنوا کے باقیوں کو اس سے روکنے کی ترغیب دے ۔
دنیا میں سبھی کچھ آپکے لیے نہیں ہے ۔ لہذا جو چیزیں میسر نہیں اور اگر حالات موافق نہیں تو جان لیجیے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب
اور کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اسکا کوئی کرے گا کیا ،
یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہی میکدے کا نظام ہے کہ اپنی آزمائش کو وقار اور صبر سے برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیجیے ۔ واویلا مسائل کا حل نہیں
#سمیراامام
#یہی_میکدے_کا_نظام_ہے