Atif Chauhdary
محفلین
چلو چھوڑو پرانی داستاں کا ذکر کیا کرنا ،
ہُوا جو بھی وہ ہونا تھا ،
کیا ترکِ وفا کس نے، وہ میں تھا یا کہ تم جاناں ،
چلو گر یوں ہوا کہ تم نے بخشے ہجر کے لمحے ،
تو کیوں الزام دوں تم کو ،
محبت کی حقیقت ہی ہے کچھ ایسی ،
چلو ہم نے ہمشہ ساتھ رہنے کے اگر پیماں کیئے بھی تھے ،
تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیماں مر بھی جاتے ہیں ،
میں اتنا بے خبر ہوں کہ مجھے معلوم ہی کب ہے ،
کہ جاناں اب کہاں ہو تم ،
تم اکثر پوچھا کرتی تھیں ،
کہ جیون ، زندگی، چاہت، محبت، ہجر کی باتیں ،
خوشی کی کیا حقیقت ہے ؟
اداسی کا سبب کیا ہے ؟
حقیقت موت کی کیا ہے ؟
میری بس ایک عادت تھی ،
تمہارے سب سوالوں کو میں ہنس کر ٹال دیتا تھا ،
چلو پھر آج میں تم کو سبھی باتیں بتاتا ہوں ،
یہ جیون ، زندگی دونوں عجب ہی ہیں ،
کوئی کہتا ہے جیون ، زندگی یوں ہے ،
کہ جیسے ایک انسان کو ،
کسی الزام کے بن ہی سزا دی جائے پھانسی کی ،
اگر خود سے ملے فرصت تو پھر تم دیکھنا ،
کہ ہر طرف انساں بڑی ذلت میں سانسیں لے رہیں ہوگے ،
یہ دُھتکارے ہوئے وہ لوگ ہیں جن سے میرا گہرا تعلق ہے ،
مگر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کا تم بھی حصہ ہو ،
جو کہتے ہیں کسی پاتال سے لے کر بڑے دلکش نظاروں تک ،
تیری مسکان سے لے کر میرے دل کی بہاروں تک ،
یہ جیون خوبصورت ہے ،
یہ ایسے لوگ ہیں جن کو نہیں فرصت سمجھنے کی ،
حقیقت کیا ہے جیون کی ،نہ یہ کہ زندگی کیا ہے؟
میں ان لوگوں پہ اپنی رائے کو محفوظ رکھتا ہوں ،
کہ تم ناراض مت ہونا ،
چلو اب بات کرتے ہیں محبت کی ،
محبت ایک دھوکا ہے سراسر خود فریبی ہے ،
کسی کا کون ہوتا ہے ؟
محبت کی حقیقت اور کیا ہوگی ،
کسی بھی غیر کو اپنا بنانے کی سعی ناکام ہی کہہ لو ،
مگر پھر بھی مجھے یہ ماننا ہوگا ،
محبت ایسا جذبہ ہے کبھی جو مٹ نہیں سکتا ،
محبت مر نہیں سکتی ،
مگر اتنا تو کہنے کا مجھے حق دو ،
محبت مار دیتی ہے ،
کہو تو ہجر پر بھی اب ذرا سی بات ہو جائے ،
سنا ہے ہجر قاتل ہے ،
یہ انسان کو رولاتا ہے یہ نیندیں نوچ لیتا ہے ،
یہ جیتے جی کسی کو مار دیتا ہے ،
مگر میں اتنا کہتا ہوں ،
دو دلوں میں اگر کوئی دوری نہیں ،
ہاتھ میں ہاتھ ہو یہ ضروری نہیں ،
ہجر نے تیرے مجھ کو مکمل کیا ،
زندگی تیرے بن بھی ادھوری نہیں ،
کبھی تم نے یہ پوچھا تھا ،
حقیقت موت کی کیا ہے ؟
کتابوں میں بھی تم نے یہ پڑھا ہوگا ،
کہ جب سانسیں اکھڑ جائیں ،
توانسان موت کی وادی میں اپنے پاؤں رکھتا ہے ،
تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا یہ ضد ہے زندگانی کی ،
مگر جاناں میں اس کو نیند کہتا ہوں ،
یا اس کے بعد اچھی زندگی آغاز کرتی ہے ،
کبھی سڑکوں پہ جلتی زندہ لاشوں کو اگر دیکھو ،
تو تم کو موت کے معنی سمجھ میں آ ہی جائیں گے ،
چلواب ذکر کرتے ہیں، خوشی کیا ہے ؟
اداسی کا سبب کیا ہے ؟
تمہں تکلیف تو ہوگی ؟
مگر خاموش رہنا ہی میرے بس میں نہیں اب کے ،
حسیں منزل کی خواہش میں کوئی جب اپنا ہمدم چھوڑ جاتا ہے ،
تو پھر وہ چونکتا کیوں ہے ،
کبھی جو ذکر ہو اسکا تو آنکھیں بھیگتی کیوں ہیں ،
کبھی جب اس حسین منزل پہ ہر شے ہو ،
مگر ہمدم کوئی نا ہو ،
خدا تم پر کبھی وہ وقت نا لائے ،
مگر ایسا ہوا تو تم اداسی کا سبب خود جان جاؤ گی ،
چلو چھوڑو خوشی کا ذکر کیا کرنا ،
محبت کو نبھا دینا حقیقت میں خوشی ہے بس ،
چلو جاناں کہ اب تم سے ،
اجازت چاہتا ہوں میں ،
ہمشہ کو خدا حافظ ... !
عاطف چوہدری
پیش لفظ کتاب : محبت کم نہیں کرنا
ہُوا جو بھی وہ ہونا تھا ،
کیا ترکِ وفا کس نے، وہ میں تھا یا کہ تم جاناں ،
چلو گر یوں ہوا کہ تم نے بخشے ہجر کے لمحے ،
تو کیوں الزام دوں تم کو ،
محبت کی حقیقت ہی ہے کچھ ایسی ،
چلو ہم نے ہمشہ ساتھ رہنے کے اگر پیماں کیئے بھی تھے ،
تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیماں مر بھی جاتے ہیں ،
میں اتنا بے خبر ہوں کہ مجھے معلوم ہی کب ہے ،
کہ جاناں اب کہاں ہو تم ،
تم اکثر پوچھا کرتی تھیں ،
کہ جیون ، زندگی، چاہت، محبت، ہجر کی باتیں ،
خوشی کی کیا حقیقت ہے ؟
اداسی کا سبب کیا ہے ؟
حقیقت موت کی کیا ہے ؟
میری بس ایک عادت تھی ،
تمہارے سب سوالوں کو میں ہنس کر ٹال دیتا تھا ،
چلو پھر آج میں تم کو سبھی باتیں بتاتا ہوں ،
یہ جیون ، زندگی دونوں عجب ہی ہیں ،
کوئی کہتا ہے جیون ، زندگی یوں ہے ،
کہ جیسے ایک انسان کو ،
کسی الزام کے بن ہی سزا دی جائے پھانسی کی ،
اگر خود سے ملے فرصت تو پھر تم دیکھنا ،
کہ ہر طرف انساں بڑی ذلت میں سانسیں لے رہیں ہوگے ،
یہ دُھتکارے ہوئے وہ لوگ ہیں جن سے میرا گہرا تعلق ہے ،
مگر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کا تم بھی حصہ ہو ،
جو کہتے ہیں کسی پاتال سے لے کر بڑے دلکش نظاروں تک ،
تیری مسکان سے لے کر میرے دل کی بہاروں تک ،
یہ جیون خوبصورت ہے ،
یہ ایسے لوگ ہیں جن کو نہیں فرصت سمجھنے کی ،
حقیقت کیا ہے جیون کی ،نہ یہ کہ زندگی کیا ہے؟
میں ان لوگوں پہ اپنی رائے کو محفوظ رکھتا ہوں ،
کہ تم ناراض مت ہونا ،
چلو اب بات کرتے ہیں محبت کی ،
محبت ایک دھوکا ہے سراسر خود فریبی ہے ،
کسی کا کون ہوتا ہے ؟
محبت کی حقیقت اور کیا ہوگی ،
کسی بھی غیر کو اپنا بنانے کی سعی ناکام ہی کہہ لو ،
مگر پھر بھی مجھے یہ ماننا ہوگا ،
محبت ایسا جذبہ ہے کبھی جو مٹ نہیں سکتا ،
محبت مر نہیں سکتی ،
مگر اتنا تو کہنے کا مجھے حق دو ،
محبت مار دیتی ہے ،
کہو تو ہجر پر بھی اب ذرا سی بات ہو جائے ،
سنا ہے ہجر قاتل ہے ،
یہ انسان کو رولاتا ہے یہ نیندیں نوچ لیتا ہے ،
یہ جیتے جی کسی کو مار دیتا ہے ،
مگر میں اتنا کہتا ہوں ،
دو دلوں میں اگر کوئی دوری نہیں ،
ہاتھ میں ہاتھ ہو یہ ضروری نہیں ،
ہجر نے تیرے مجھ کو مکمل کیا ،
زندگی تیرے بن بھی ادھوری نہیں ،
کبھی تم نے یہ پوچھا تھا ،
حقیقت موت کی کیا ہے ؟
کتابوں میں بھی تم نے یہ پڑھا ہوگا ،
کہ جب سانسیں اکھڑ جائیں ،
توانسان موت کی وادی میں اپنے پاؤں رکھتا ہے ،
تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا یہ ضد ہے زندگانی کی ،
مگر جاناں میں اس کو نیند کہتا ہوں ،
یا اس کے بعد اچھی زندگی آغاز کرتی ہے ،
کبھی سڑکوں پہ جلتی زندہ لاشوں کو اگر دیکھو ،
تو تم کو موت کے معنی سمجھ میں آ ہی جائیں گے ،
چلواب ذکر کرتے ہیں، خوشی کیا ہے ؟
اداسی کا سبب کیا ہے ؟
تمہں تکلیف تو ہوگی ؟
مگر خاموش رہنا ہی میرے بس میں نہیں اب کے ،
حسیں منزل کی خواہش میں کوئی جب اپنا ہمدم چھوڑ جاتا ہے ،
تو پھر وہ چونکتا کیوں ہے ،
کبھی جو ذکر ہو اسکا تو آنکھیں بھیگتی کیوں ہیں ،
کبھی جب اس حسین منزل پہ ہر شے ہو ،
مگر ہمدم کوئی نا ہو ،
خدا تم پر کبھی وہ وقت نا لائے ،
مگر ایسا ہوا تو تم اداسی کا سبب خود جان جاؤ گی ،
چلو چھوڑو خوشی کا ذکر کیا کرنا ،
محبت کو نبھا دینا حقیقت میں خوشی ہے بس ،
چلو جاناں کہ اب تم سے ،
اجازت چاہتا ہوں میں ،
ہمشہ کو خدا حافظ ... !
عاطف چوہدری
پیش لفظ کتاب : محبت کم نہیں کرنا