جاسمن
لائبریرین
یہ آرزو تھی: ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
نوکری سے واپسی پہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی، جنگلے میں بیٹھے بلبل پہ نظر پڑی۔
" ہائے اللہ! یہ یہاں کیوں بیٹھا ہے؟"
میں ایک دم ٹھٹھک کے وہیں رک گئی۔ اسے غور سے دیکھا تو بہت اداس اور خاموش سا لگا۔ ہاتھ بڑھا کے پکڑا تو آرام سے آ گیا۔
"ضرور کچھ مسئلہ ہے اس کے ساتھ. ورنہ کوئی بھی آزاد پرندہ اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔"
دائیں ہاتھ سے اسے پکڑے اور بائیں میں اپنی چیزیں سنبھالتے نشست گاہ میں داخل ہوئی۔
"کیا بات ہے پیارے بلبل؟ بھوک لگی ہے؟ میں ابھی کھانا بھی دیتی ہوں اور پانی بھی۔ بالکل پریشان نہ ہونا۔ ہم ابھی کچھ کرتے ہیں."
گھر والے حیران کہ یہ کس سے باتیں کرتی آ رہی ہے۔ پھر ان کی نظر بلبل پہ پڑی تو سب مسکرانے لگے۔ قدرے حیران بھی ہوئے کہ اسے کہاں سے پکڑا؟ کیا ہوا اسے؟
باہر صحن میں دو کنالیاں پڑی ہیں۔ ایک میں روٹی کے ٹکڑے اور دوسری میں باجرہ وغیرہ ہوتا ہے۔ سلور کے کٹورے میں پانی۔ اسے باجرے والی کنالی میں بٹھایا۔ لیکن اس نے باجرے میں منہ نہیں مارا۔
دوبارہ اٹھایا۔ "کیا بات ہے مٹھو؟ کیا ہوا ہے؟ کھانا کیوں نہیں کھاتے؟"
ہم دونوں اک دوجے کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ کوئی بات تھی تو تب بھی اس نے ایک چوں کی آواز بھی نہیں نکالی۔
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
اس کے سر کو چوما۔ "دیکھو ٹھیک ہو جاؤ۔ پھر تمہیں بلبل کا بچہ والی نظم سناؤں گی۔ سنو گے ناں؟ چلو آؤ تمہیں دھوپ میں بٹھاتی ہوں۔"
اسے کھرے کی منڈیر پہ دھوپ میں بٹھایا۔ ایک ڈھکن میں پانی آگے رکھا لیکن اس نے پانی بھی نہیں پیا۔
ارادہ تھا کہ کچھ دیر تک نہیں پیتا تو کسی ڈراپر میں ڈال کے اسے پلانے کی کوشش کروں گی۔
"معلوم نہیں، اسے کیا ہوا ہے!
کیا اسے کسی کے بچھڑنے کا تازہ تازہ غم لگا ہے!
کیا کسی نے اس سے بے وفائی کی ہے!
کوئی دھوکہ ہوا ہے اس کے ساتھ!"
پرندوں کی زبان ہوتی، وہ بولتے تو نجانے کتنے راز کھلتے۔
"بلبل فقط آواز ہے" آج تو اس کی آواز بھی نہ رہی۔
میں سوچ رہی تھی کہ" پرندوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔
درد محسوس کرتے ہیں یہ بھی جیسے ہم کرتے ہیں۔
اک دوجے سے فطری محبتوں میں یہ بھی مبتلا ہوتے ہوں گے ہماری طرح۔
یہ بھی محبت میں بے وفائی پہ، پیاروں کے بچھڑنے پہ ہماری طرح بکھرتے ہوں گے.
تو ایسے میں یہ کیا کرتے ہوں گے!
کیا اسی طرح کسی گوشے میں اداس سے، بھوکے پیاسے خاموش بیٹھے رہتے ہوں گے؟"
میں نے پھر اس کی جانب دیکھا۔ ڈھکن میں پانی ویسے ہی پڑا تھا۔ وہ ایک طرف کو سر کیے ساری دنیا سے ناراض لگ رہا تھا۔ جس کے لیے پورے پورے گلستان اپنے پھولوں سمیت منتظر ہوتے ہیں، آج اسے کسی گل، کسی گلستان کی پرواہ نہیں تھی۔
بلبل نے آشیاں جو چمن سے اٹھا لیا
اس کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
کیا بلبل کسی کو اپنے دکھ سناتے ہوں گے؟
اور کس کو سناتے ہوں گے؟
ع: نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
یہ اور ایسی کتنی سوچیں ایک ہی پل میں ذہن میں آئیں۔
اب اسے دیکھا تو پر کھول رہا تھا۔ تھوڑا اطمینان ہوا کہ طبیعت زیادہ خراب نہیں۔ شاید سردی لگ گئی تھی۔
کچھ دیر بعد پھر سے پر کھولے اور اڑ کے منڈیر پہ جا بیٹھا۔ میں مسکرا کے اس کی طرف بڑھی۔ یہ خوش فہمی تھی کہ اب پھر میرے پاس آ جائے گا۔ لیکن اس نے میری طرف ایک نظر دیکھا اور شاید مسکرایا بھی۔ پھر اڑ گیا۔
میری بصارت میں اس کی صورت، میرے ہونٹوں اور ہاتھوں پہ اس کا لمس ایک حسین یاد کی صورت میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
اسی جگہ اسی وقت ایک فاختہ آ کے بیٹھ گئی۔زندگی کا کینوس کبھی خالی نہیں رہتا۔
آخری تدوین: