یہ انساں یہ انساں کے سامان سب

شوکت پرویز

محفلین
یہ انساں یہ انساں کے سامان سب​
گھڑی دو گھڑی کے ہیں مہمان سب​
یہ انساں کی بستی بیابان سی​
یہ انساں کے چولے میں حیوان سب​
جو پرکھا تو دو چار پایا فقط​
دکھائی تو دیتے ہیں انسان سب​
ہیں دنیا کے بارے میں دانا مگر​
ہیں مذہب کے بارے میں نادان سب​
ہے مطلب پرستی دلوں میں بسی​
بھلا بیٹھے ہیں رب کے فرمان سب​
ہدایت کو پکڑا فرشتے ہوئے​
ضلالت کو پکڑا تو شیطان سب​
کرو ختم شوکت اب اپنی غزل​
ہوئے جارہے ہیں پشیمان سب​
 

شوکت پرویز

محفلین
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا۔۔۔ :)

اب کچھ کرتا ہوں اس بارے میں۔۔۔ :thinking:

یہ 25 دسمبر 2011 کی لکھی ہوئی ہے؛ اور ان دنوں میں تو even عروض کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا :(
اس غزل کے پیچھے (بھی) ایک کہانی ہے:
میں بھیونڈی میں اپنے ایک ماموں کو اپنی کچھ "شاعری" بتانے گیا۔ تو انہوں نے مجھے کچھ حد تک discourage کیا، شاید اس کی کوئی valid وجہ رہی ہو۔۔۔
خیر، تو وہاں سے واپسی میں سفر کے دوران ہی اس واقعہ پر کچھ "اشعار" بن گئے
including یہ مطلع:
مجھے دیکھ ہوتے ہیں حیران سب​
پھر گھر آ کر جب میں انہیں پوری "غزل" بنارہا تھا تب یہ ایک شعر بنا:
جو پرکھا تو دو چار پایا فقط
دکھائی تو دیتے ہیں انسان سب
اب مجھے یہ بات درست نہیں لگی کہ اس (مسلسل) غزل میں یہ شعر ڈالوں؛ لیکن شعر بھی مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا، تو "مجبوری" میں (اسی وقت) دوسری غزل کی کوشش کر ڈالی جو کہ اوپر پوسٹ کی گئی ہے۔
یہ دونوں غزلیں ایک ہی وقت میں "بنی" تھیں۔

ہائے اللہ، میں کتنا کہہ گیا۔۔
:)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ انساں کی بستی بیابان سی​
یہ انساں کے چولے میں حیوان سب​
ہیں دنیا کے بارے میں دانا مگر​
ہیں مذہب کے بارے میں نادان سب​
کرو ختم شوکت اب اپنی غزل​
ہوئے جارہے ہیں پشیمان سب​


واہ واہ واہ

بہت خوب ہے شوکت پرویز بھائی۔۔۔۔!

نذرانہ ء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف

ویسے مقطع آپ کا خوب ہے لیکن اب لوگوں نے پشیمان ہونا چھوڑ دیا ہے۔

مقطع سے ایک شعر یاد آگیا۔
ختم کردے اے صباؔ اب شامِ غم کی داستاں​
دیکھ اُن آنکھوں میں بھی آنسو نظر آنے لگے​
 
Top