یہ اک غنچہ جو مہکایا گیا ہے

عظیم

محفلین
ایک بالکل تازہ غزل جو ابھی ابھی لکھی گئی ہے! پیش خدمت ہے


یہ اک غنچہ جو مہکایا گیا ہے
کسی کی یاد میں لایا گیا ہے

بہلتا تھا نہ دل دیوانوں کا جب
انہیں پھر شعر سکھلایا گیا ہے

یہ خانہ ہے مسافر خانہ ایسا
یہاں جو بھی کبھی آیا گیا ہے

مرا دل ہے کہ قبرستان کوئی
یہاں ہر خواب دفنایا گیا ہے

جو اس کی کھوج میں نکلا ہے آخر
وہ خود سے دور ہی پایا گیا ہے

کسی کی آنکھ پر پر دے ہیں لاکھوں
کسی کو خوب دکھلایا گیا ہے

کہاں تھا دل مرا دھبوں سے بھرپور
کہاں اس ہاتھ میں لایا گیا ہے

لٹا کر جاں گئے اس راہ میں لوگ
مرا کیا؟ صرف سرمایہ گیا ہے!

عظیم اس کے لیے سب کچھ ہے قربان
جو میرا ہے یہ بتلایا گیا ہے


 

الف عین

لائبریرین
خوب بیٹا عظیم
دوسرا شعر البتہ خستہ روانی کی وجہ سے اچھا نہیں لگا
کسی کو خوب؟ یا خواب دکھلایا گیا ہے؟

 
Top