غزل قاضی
محفلین
یہ ایک نام
شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور
اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے
تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے
فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں
دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں
! یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا
کہ جیسے تُند گناہوں کے سینکڑوں عفرِیت
بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو جائیں
اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں
لُہو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں
نشے کے بوجھ سے چِیخیں ، تو چِیختی رہ جائیں
اِسی جنوں میں ، اِسی آندھیوں کے میلے میں
تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے
سفید ، دودھ سے شفاف ، عکس سے نازک
اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے
تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں
چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک
کچھ آنسوؤں کی گُھلاوٹ ، کچھ آرزو کی کسک
یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں
جہاں سحر کا پتہ ہَے نہ زندگی کا سُراغ
نہ جانے کِتنے عقیدے ، نہ جانے کِتنے چراغ
تلاش کرتے مگر روشنی نہیں مِلتی
ہزار رنگ بِکھرتے ، ہزار کچے رنگ
جو اَب نصِیب ہَے وُہ سادگی نہیں مِلتی
مصطفیٰ زیدی
(شہرِ آذر)
شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور
اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے
تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے
فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں
دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں
! یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا
کہ جیسے تُند گناہوں کے سینکڑوں عفرِیت
بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو جائیں
اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں
لُہو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں
نشے کے بوجھ سے چِیخیں ، تو چِیختی رہ جائیں
اِسی جنوں میں ، اِسی آندھیوں کے میلے میں
تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے
سفید ، دودھ سے شفاف ، عکس سے نازک
اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے
تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں
چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک
کچھ آنسوؤں کی گُھلاوٹ ، کچھ آرزو کی کسک
یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں
جہاں سحر کا پتہ ہَے نہ زندگی کا سُراغ
نہ جانے کِتنے عقیدے ، نہ جانے کِتنے چراغ
تلاش کرتے مگر روشنی نہیں مِلتی
ہزار رنگ بِکھرتے ، ہزار کچے رنگ
جو اَب نصِیب ہَے وُہ سادگی نہیں مِلتی
مصطفیٰ زیدی
(شہرِ آذر)