کاشفی
محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی
یہ بات، یہ تبسّم، یہ ناز، یہ نگاہیں
آخر تمہیں بتاؤ کیوں کر نہ تم کو چاہیں
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکوؤں سے ہات اُٹھایا
مر جاؤں گا ستمگر، نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گُل ہی سے نہیں ہے رُوح نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں
اللہ ری دلفریبی جلوؤں کے بانکپن کی
محفل میں وہ جو آئے کج ہوگئیں کلاہیں
یہ بزم، جوش، کس کے جلوؤںکی رہگزر ہے
ہر ذرّے میں ہیں غلطاں اُٹھتی ہوئی نگاہیں
جوش ملیح آبادی
یہ بات، یہ تبسّم، یہ ناز، یہ نگاہیں
آخر تمہیں بتاؤ کیوں کر نہ تم کو چاہیں
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکوؤں سے ہات اُٹھایا
مر جاؤں گا ستمگر، نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گُل ہی سے نہیں ہے رُوح نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں
اللہ ری دلفریبی جلوؤں کے بانکپن کی
محفل میں وہ جو آئے کج ہوگئیں کلاہیں
یہ بزم، جوش، کس کے جلوؤںکی رہگزر ہے
ہر ذرّے میں ہیں غلطاں اُٹھتی ہوئی نگاہیں