ایم اے راجا
محفلین
اس تصویر میں نظر آنے والے بچے نہ تو کسی پارک میں کھیل کود رہے ہیں اور نہ ہی سروس شوز کی اس مہنگی شاپ سے شاپنگ کا شوق فرما رہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کے اکثر شہروں سینکڑوں کی تعداد میں بھیک مانگنے کے روزگار سے وابستہ چند بچے ہیں جو یہاں شاپنگ کرنے کے لیئے آنے والے امیروں سے دو، چار آنے مانگنے کا کاروبار کرتے ہیں، میں نے دیکھے کہ یہ بچے فراغت پا کر آپس میں کھیلنے میں مصروف ہیں تو میں نے ان کی تصویر بنانا چاہیئے، لیکن یہ کیا ؟ ان میں سے ایک بچے کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے سب کو خبردار کیا اور پھر وہاں سے نو دو گیارہ ہونے لگے اسی دوران میں نے ان ی ایک تصویر کھینچ لی۔
کچھ ہی دیر بعد ان میں سے ایک بچی میری گاڑی کے پاس آئی اور مجھ سے دو چار آنے دینے کی اپیل کرنے لگی تو میں نے کہا تم سب کو لے آؤ میں تمہاری ایک تصویر بناؤں گا، اور تمہیں پچاس روپے دوں گا تو اس نے جھٹ سے کہا، ناں صاب ناں تم اخبار میں دے دے گا، میں نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہا، تو بولی، چاچا نے ہم کو بولا ہے کہ کسی کو فوٹو یا فلم ( وڈیو) نہیں بنانے دو بھاگ جایا کرو، ورنہ اخبار میں یا ٹی وی میں آ جائے گا اور دھندہ بند ہو جائے گا، میں حیران تھا کہ کیا تھیوری ہے اور یہ تھیوری بتانے والا واقعی کوئی حقیقی چاچا ہے یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد ان میں سے ایک بچی میری گاڑی کے پاس آئی اور مجھ سے دو چار آنے دینے کی اپیل کرنے لگی تو میں نے کہا تم سب کو لے آؤ میں تمہاری ایک تصویر بناؤں گا، اور تمہیں پچاس روپے دوں گا تو اس نے جھٹ سے کہا، ناں صاب ناں تم اخبار میں دے دے گا، میں نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہا، تو بولی، چاچا نے ہم کو بولا ہے کہ کسی کو فوٹو یا فلم ( وڈیو) نہیں بنانے دو بھاگ جایا کرو، ورنہ اخبار میں یا ٹی وی میں آ جائے گا اور دھندہ بند ہو جائے گا، میں حیران تھا کہ کیا تھیوری ہے اور یہ تھیوری بتانے والا واقعی کوئی حقیقی چاچا ہے یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی اس پیشہ ءِ گداگری کو روکنے والا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟