آصف شفیع
محفلین
ایک غزل احباب کی خدمت میںً۔ آرا کا نتظار رہے گا۔
غزل:
یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے
سب کے پیشِ نظر خزانہ ہے
کل وہاں خاک بھی نہیں ہو گی
آج میرا جہاں ٹھکانہ ہے
میرے حصے میں آئے گا اک دن
میری قسمت میں جو بھی دانہ ہے
آندھیوں کو خبر نہیں شاید
شاخ ہی میرا آشیانہ ہے
آپ عادی پرانے وقتوں کے
اب ذرا مختلف زمانہ ہے
اپنے اپنے ہنر میں ہے یکتا
کوئی غالب، کوئی یگانہ ہے
حسن کا میں اسیر ہوں آصف
میری فطرت ہی شاعرانہ ہے
( آصف شفیع)
غزل:
یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے
سب کے پیشِ نظر خزانہ ہے
کل وہاں خاک بھی نہیں ہو گی
آج میرا جہاں ٹھکانہ ہے
میرے حصے میں آئے گا اک دن
میری قسمت میں جو بھی دانہ ہے
آندھیوں کو خبر نہیں شاید
شاخ ہی میرا آشیانہ ہے
آپ عادی پرانے وقتوں کے
اب ذرا مختلف زمانہ ہے
اپنے اپنے ہنر میں ہے یکتا
کوئی غالب، کوئی یگانہ ہے
حسن کا میں اسیر ہوں آصف
میری فطرت ہی شاعرانہ ہے
( آصف شفیع)