نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رت جگوں کے بھنور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیار یمن کے سرخ عقیق
یہ آئینے سی جبیں سجدہ گاہ لیل و نہار
یہ نیاز گھنے جنگلوں سے بال تیرے
یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا عکس گالوں پر
یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوے ابرو
کمند ڈال رہے ہیں میرے خیالوں پر
یہ نرم نرم سے ہاتھوں کا گرم گرم سا لمس
گداز جسم پہ بلور کی تہوں کا سماں
یہ انگلیاں یہ زمرد تراشی شاخیں
کرن کرن تیرے دانتوں پہ موتیوں کا گماں
یہ چاندنی میں دھلے پاؤں جب بھی رقص کریں
فضا میں ان گنے گھنگھرو چھنکتے لگتے ہیں
یہ پاؤں جب کسی رستے میں رنگ برسائیں
تو موسموں کے مقدر سنورنے لگتے ہیں
تیری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
مزاج گردش دوراں بھی لڑکھڑا جاے
تو مسکراے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آے
تیرا خیال ہے خوشبو ، تیرا لباس کرن
تو خاک زاد ہے یا آسماں سے اتری ہے
میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتا ہوں
یہ رنگ موج زمیں پر کہاں سے اتری ہے ؟
میں کس طرح تجھے لفظوں کا پیرہن بخشوں ؟
میرے ہنر کی بلندی تو سرنگوں ہے ابھی
تیرے بدن کے خد و خال میرے بس میں نہی
میں کس طرح تجھے سوچوں،یہی جنوں ہے ابھی
ملے ہیں یوں تو کئی رنگ کے حسیں چہرے
میں بے نیاز رہا موجِ صبا کی طرح
تیری قسم تیری قربت کے موسموں کے بغیر
زمیں پہ میں بھی اکیلا پھرا خدا کی طرح
مگر میں شہر حوادث کے سنگ زادوں سے
یہ آئینے سا بدن کس طرح بچاؤں گا ؟
مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے کرب سمیت
میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا
مجھے یہ ڈر ہے کہ تیرے تبسموں کی پھوار
یونہی وفا کا تقاضا حیا کا طور نہ ہو
تیرا بدن تیری دنیا ہے منتظر جس کی
میں سوچتا ہوں میری جاں وہ کوئی "اور" نہ ہو
میں سوچتا ہوں مگر سوچنے سے کیا حاصل
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیار یمن کے سرخ عقیق
یہ آئینے سی جبیں سجدہ گاہ لیل و نہار
یہ نیاز گھنے جنگلوں سے بال تیرے
یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا عکس گالوں پر
یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوے ابرو
کمند ڈال رہے ہیں میرے خیالوں پر
یہ نرم نرم سے ہاتھوں کا گرم گرم سا لمس
گداز جسم پہ بلور کی تہوں کا سماں
یہ انگلیاں یہ زمرد تراشی شاخیں
کرن کرن تیرے دانتوں پہ موتیوں کا گماں
یہ چاندنی میں دھلے پاؤں جب بھی رقص کریں
فضا میں ان گنے گھنگھرو چھنکتے لگتے ہیں
یہ پاؤں جب کسی رستے میں رنگ برسائیں
تو موسموں کے مقدر سنورنے لگتے ہیں
تیری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
مزاج گردش دوراں بھی لڑکھڑا جاے
تو مسکراے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آے
تیرا خیال ہے خوشبو ، تیرا لباس کرن
تو خاک زاد ہے یا آسماں سے اتری ہے
میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتا ہوں
یہ رنگ موج زمیں پر کہاں سے اتری ہے ؟
میں کس طرح تجھے لفظوں کا پیرہن بخشوں ؟
میرے ہنر کی بلندی تو سرنگوں ہے ابھی
تیرے بدن کے خد و خال میرے بس میں نہی
میں کس طرح تجھے سوچوں،یہی جنوں ہے ابھی
ملے ہیں یوں تو کئی رنگ کے حسیں چہرے
میں بے نیاز رہا موجِ صبا کی طرح
تیری قسم تیری قربت کے موسموں کے بغیر
زمیں پہ میں بھی اکیلا پھرا خدا کی طرح
مگر میں شہر حوادث کے سنگ زادوں سے
یہ آئینے سا بدن کس طرح بچاؤں گا ؟
مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے کرب سمیت
میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا
مجھے یہ ڈر ہے کہ تیرے تبسموں کی پھوار
یونہی وفا کا تقاضا حیا کا طور نہ ہو
تیرا بدن تیری دنیا ہے منتظر جس کی
میں سوچتا ہوں میری جاں وہ کوئی "اور" نہ ہو
میں سوچتا ہوں مگر سوچنے سے کیا حاصل
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور