محمد بلال اعظم
لائبریرین
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات
غالب سا بھی کوئی دیکھا ہے میرِ خرابات
وہ رندِ بلا نوش و تہی دست و سدا مست
آزاد مگر بستۂ زنجیرِ خرابات
اشعار کہ جیسے ہو صنم خانۂ آذر
الفاظ کہ جیسے ہوں تصاویرِ خرابات
وہ نغمہ سرا ہو تو کریں وجد ملائک
یہ قلقلِ مینا ہے کہ تکبیرِ خرابات
اے شیخ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں ہے
تعمیرِ خرابات ہے تعمیرِ خرابات
ہم رند رہے مجلسِ واعظ کی بھی رونق
جوں حجلۂصوفی میں تصاویرِ خرابات
کس شوخ نے لکھا ہے یہ دیوارِ حرم پر
زمزم میں کہاں نشۂ تاثیرِ خرابات
میخانہ کسی شاہ کا دربار نہیں ہے
ساقی کے تصرّف میں ہے زنجیرِ خرابات
سعدیؔ ہو کہ حافظؔ ہو کہ خیامؔ کہ ہم ہوں
یہ لوگ تو ہیں جانِ اساطیرِ خرابات
ہیں ساغر و مینا کی طرح دل بھی شکستہ
ملّا ہو جہاں کاتبِ تقدیرِ خرابات
انسان کہ انساں کا لہو پینے لگا ہے
اے چارہ گرو پھر کوئی تدبیرِ خرابات
میخانہ پنہ گاہ تھی ہم دل زدگاں کی
پر اب کہاں جائے کوئی دلگیرِ خرابات
کب سے حرم و دیر ہیں بے نور، خدارا
لے آؤ کہیں سے کوئی تنویرِ خرابات
سرشار تو ہو جاتے ہیں سرکش نہیں ہوتے
ساقی کی نگاہیں ہیں عناں گیرِ خرابات
گر حور و مے و نغمہ سے جنّت ہے عبارت
دنیا میں یہی خواب ہے تعبیرِ خرابات
اے مفتیِ بد کیش نہ کر فتویٰ فروشی
کیا تُو بھی نہیں لائقِ تعزیرِ خرابات
میخوار کہ واعظ یہاں گردن زدنی ہے؟
کچھ تُو ہی بتا صاحبِ تفسیرِ خرابات
"ویراں شود آں شہر کہ میخانہ نہ دارد"
اب جائیں کہاں ڈھونڈھنے اکسیرِ خرابات
(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ)