سلیم احمد یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ - سلیم احمد

یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ
نقش تھی پہلے دلِ آزر کے بیچ

دیکھنا ہے اب دیے کے زور کو
لا کے رکھ دوں گا ہوا میں در کے بیچ

آنکھ ہے نادیدگاں کی منتظر
اک کمی لگتی ہے ہر منظر کے بیچ

وہ لباسِ درد میں ملبوس تھا
سیکڑوں پیوند تھے چادر کے بیچ

کیا بتاؤں کیوں ہوئی مجھ کو شکست
میرا دشمن تھا مرے لشکر کے بیچ

کس نے دل میں رکھ دیے یہ فاصلے
کس نے دیواریں اٹھا دیں در کے بیچ

نشے کے اسرار ہیں ، کھلتا نہیں
موج ہے یا سانپ ہے ساغر کے بیچ

یہ در و دیوار ہیں رختِ سفر
میں مسافر ہوں خود اپنے گھر کے بیچ

یہ سمندر یہ سنہری کشتیاں
کاش ہوتا تو بھی اس منظر کے بیچ

بیٹھ کے صوفے پہ اٹھلاتا ہے جو
کھینچئے اس کو کبھی بستر کے بیچ
سلیم احمد
 
Top