یہ حادثہ کبھی ہوتا کہ وہ وفا کرتا

غزل​
یہ حادثہ کبھی ہوتا کہ وہ وفا کرتا​
مِرا نہیں تھا مِری موت کی دعا کرتا​
کبھی تو اسنے بھی چاہا تھا ساتھ میرا پھر​
خلوصِ دل سے محبت کی انتہا کرتا​
عجیب شخص تھا تنہا سفر پہ چل نکلا​
ذرا سی دیر تو یارب وہ آسرا کرتا​
نیا ہے سال مگر درد سب پرانے ہیں​
کہاں کہاں پہ یہ دل ضبط اے خدا کرتا​
کسے خبر تھی کہ اجلاؔل حال یہ ہوگا​
وفا کے وعدے ہی توڑے گا وہ وفا کرتا​
(سید اجلاؔل حسین - ۱ جنوری، ۲۰۱۳؁ )​
 

امر شہزاد

محفلین
عجیب شخص تھا تنہا سفر پہ چل نکلا
ذرا سی دیر تو یارب وہ آسرا کرتا

آسرا کو یہاں "انتظار" یا "صبر" کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو کہ صحیح نہیں۔


نیا ہے سال مگر درد سب پرانے ہیں
کہاں کہاں پہ یہ دل ضبط اے خدا کرتا

پہلا مصرعہ شاندار مگر دوسرا مصرعہ اس درجے کا رواں نہیں ہے۔
دونوں مصرعے مربوط بھی نہیں ہیں۔

کسے خبر تھی کہ اجلاؔل حال یہ ہوگا
وفا کے وعدے ہی توڑے گا وہ وفا کرتا

دوسرے مصرعے کو تھوڑی توجہ اور چاہیے
 
عجیب شخص تھا تنہا سفر پہ چل نکلا
ذرا سی دیر تو یارب وہ آسرا کرتا

آسرا کو یہاں "انتظار" یا "صبر" کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو کہ صحیح نہیں۔
جناب یہاں پر 'آسرا' کو آسرے ، یعنی بھروسے کے طور ہی استعمال کیا گیا ہے۔ اسی لئے خاص طور پر لفظ 'یارب' بھی استعمال کیا گیا ہے۔

بہرحال جناب شہزاد صاحب، آپ کے مشورے سر آنکھوں پر۔ انشاءاللہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ بہتری محسوس کریں گے۔ ابھی تو احقر نے لکھنا شروع کیا ہے۔ یہ غالباً پانچویں یا چھٹی، پابندِ بحر غزل ہے۔

سدا خوش رہیئے، سلامت رہیئے!
 
Top