یہ دسمبر بھی بیت جائے گا

سحرش سحر

محفلین
آج ماہ تمام کا انتہائی یخ بستہ تیسواں دن ہے ۔۔ ٹھنڈی ہواوں کےسنگ بادل زمیں پر اتر آئے ہیں ۔ پورا ماحول کہر زدہ ہے ۔ قطرہ ہائے ابر کی مانند باقاعدہ اوس برس رہی ہے ۔ گرمی سے شاکی اور نالاں لوگ جو سردی کے موسم کے دیوانے ہوتے ہیں ....وہ بھی سی سی کر نے پر مجبور بستروں میں دبک کر بیٹھے ہیں ۔
آج بستر میں بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ برستی رنگین اوس کی پھوار میں' دھندلا لباس پہنے 'خاموشی کی چادر اوڑھے ' کسی خیال میں کھویا ' اداس نگاہ لیے دسمبرمیں ایسا کچھ تو ہے کہ جب انسانوں کی بستی میں داخل ہوتا ہے تو ہر طرف غل مچ جاتا ہے :
اسے کہنا 'دسمبر لوٹ آیا ....
لوٹ آؤ...پھر دسمبر لوٹ آیا ہے ....
واہ! دسمبر تو دسمبر ہے.......
دسمبر کچھ تو بولو ....
دسمبر اداس ہے .....
میری تنہائی اور دسمبر ....
اور دسمبر بیت جائے گا ..
اور بعض منچلوں نے نہ جانے کیوں کلام دسمبر ہی کی ایسی کی تیسی کردینے کی تمنا کی ہے۔
شاید یہ مندرجہ بالا خیالات ان نامرادوں یا اذیت پسند عاشقوں اور شعراء کے ہیں کہ جنھوں نے محبت کا روگ پالا ہوتا ہے ۔ جو دن ورات اپنے محبوب کے ہجر میں سرد آہیں بھرتے ہیں مگر سارا الزام دسمبر کے سر ہی تھوپتے ہیں ۔
یہ یخ بستہ مہینہ واقعی انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس میں بلاوجہ دل اداس ہوتے ہیں ۔ یا بعض تلخ یادیں بھی ہو سکتی ہیں جن سے دل بوجھل ہوتے ہیں جو انسان کو ہمیشہ اذیت دیتی ہیں بلکہ میڈیکل سائنس کہتی ہےکہ شدید سردی میں ڈپریشن کے مریضوں کی بیماری بھی شدت اختیار کر لیتی ہے اور یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے ۔ سو ان نامراد عاشقوں کی اپنی اداسی اور مایوسی میں جب دسمبر کی اداسی بھی شامل ہو جاتی ہے تو سونے پہ سہاگہ .......

اس ماہ سقر میں سردی ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر ہر انسان و حیوان کو گھروں، تہہ خانوں، غاروں بلوں میں گھسنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ انسانوں کو تو رضائی، کمبل، سویٹرز ، کوٹ، گرم چادر، جراب وغیرہ میں بھی دبا کر رکھتی ہے ۔
لنڈ منڈ خزاں رسیدہ درخت و پودے، گھاس سے خالی میدان ...بس یوں سمجھو زندگی ویران ہو جاتی ہے ۔ زندگی کو ویران کر کے دسمبر اپنی حکمرانی قائم کر تا ہے ۔
میری ناقص رائے کے مطابق سردی زندگی کا موسم نہیں بلکہ گرمی کا موسم زندگی کا موسم ہے ۔ زندگی کی جو چہل پہل، رونقیں، شور شرابا، رنگ، امنگ ترنگ اور کیف و سرور گرمی میں ہوتا ہے وہ شدید سردی میں کہاں .... برف باری سے کچھ دنوں کے لیے لطف اٹھانے والے سیاح اب یہ دعویٰ کرنے نہ بیٹھ جائیں کہ وہاں تو بہت رونق ہوتی ہے ۔ ہوتی ہوگی ۔ ارے صاحب! یہ دو الگ الگ تجربے ہیں ، چند دنوں کا مہمان بن کر رہنا یا مستقل رہائش اختیار کرنا ۔
دنیا کے وہ خطے جہاں شدید برف پڑتی ہے اور سردی کا دورانیہ طویل ہوتا ہے نجانے ان پر کیا گزرتی ہوگی؟
دسمبر کی مفلوج کر دینے والی سردی زندگی کی تمام تر رونقوں کو اپنی آغوش میں لے کر لوری دے دے کر سلا دیتی ہے اور پیچھے صرف اداسی رہ جاتی ہے ۔ اداسی کا کرب تب شدید ہوتا ہے جب تنہائی کا بھوت بھی ارد گرد منڈلا رہا ہو ۔
سر شام ہی لمبی لمبی اداس سیاہ راتیں پاؤں پھیلا کر سو جاتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے بے رونق دن تو بس تاریکی کے بیچ آنکھ مچولی کھیلتے ہیں .....پل بھر کو دن کی مدھم سی روشنی اور پھر لمبی سیاہ رات ....
ان طول طویل پراسرار اداس راتوں کی ایک ایک گھڑی، سالوں کی صورت کسی مریض یا کرب میں مبتلا کسی انسان پر کس طرح گزرتی ہے،یہ تو وہی جانتے ہیں ۔ ویسے
دسمبر کی اذیت ناک راتوں کی اذیت تو وہ چمگادڑ کی اولاد بھی محسوس کر سکتی ہے جو ساری ساری رات لحا ف کے اندر موبائل فون میں آنکھیں دئیے ہوتے ہیں اور فون سکرین کو دیکھتے دیکھتے جن کی گردن اکڑ جاتی ہے یا انکھوں کی طرف سے معذرت نامہ موصول ہوتا ہے۔
معذرت تو گرم پانی بھری بالٹی سے اس وقت کی جاتی ہے جب کمزور دل و اعصاب کے حا مل افراد دسمبر میں نہانے کو غسل خانہ میں داخل ہونے کے فورا بعد یہ کہہ کر باہر نکل آتے ہیں کہ ابھی تو بہت سردی باقی ہے پھر کبھی نہا لیں گے ۔ بس جنوری، فروری بخیر وخوبی تمام ہو تو مارچ کہیں گیا نہیں ۔
آج صبح نماز کی تیاری کے وقت اللہ سے فریاد کی کہ یا اللہ یہ سردی......؟
تو دل سے آواز آئی ...میرے پیارے بندے
یہ دسمبر ہے!
اف! یہ دسمبر جینے کا مہینہ ہے نہ مرنے کا ۔
سردی میں جیتے جی تو آپ پانی کو ہاتھ لگانے سے خود کو باز رکھ سکتے ہیں البتہ مرنے کے بعد بے بس مردے کو غسل ....... اللہ کی پناہ ......
بے شک دسمبر کی شدید سردی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں نے انسان و حیوان و نباتات سبھی کو شکست دے کے اپنا راج قائم کر لیا ہے اور جنوری بھی اپنا کمک بھیجنے کا تیار ہے مگر وہ کہتے ہے نا کہ:
"لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ۔ "
کل دسمبر کی راج کا آخری دن ہے ....آخری دن ...پرسوں سے انیس بیس کا فرق آجائے گا ۔
ایک دن بعد دسمبر اپنی تمام تر اداسی و مایوسی کے کہر کے دبیز پردوں کو سمیٹ کر آس کی بہار وں کے حسین نظارے چھوڑ جائے گا ۔ نئےسال، نئی امنگوں، نئی بہاروں کا آغاز ہو جائےگا ۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے بارہ مہینے یعنی تقریبا ۳۶۵ دن کیا کچھ کھویا جا چکا ہے کہ جس کی بناء پر آج داسی و مایوسی چھائی ہوئی ہے، آہیں بھر رہے ہیں اور کیا کچھ پا چکے ہیں کہ جس کو سر کا تاج بناکر فخر سے سر اٹھا کر نئی منزلوں کی جانب روانہ ہوا جا سکتا ہے ۔
دسمبر کی آخری شام کی طرح عنقریب زندگی کی شام بھی ہونے والی ہے ۔ سال نو کی طرح حیات نو کی تیاری بھی آج ہی سے پکڑ لیں. اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ۔ جو ہے اسے یاد رکھ، جو نہیں اسے بھول جا ۔
جان لیں کہ وقت ہی سب سے قیمتی شے ہے۔ جس نے اسے اپنی مٹھی میں کر لیا وہ پا گیا اور جس نے اس قیمتی شے کو ٹھوکر ماری وہی خسارہ میں رہا ۔ وقت کی قدر کیجیئے ۔
کہتے ہیں کہ وہی شخص کامیاب ہے جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو ۔
یقینًا وہ انسان ہر لحاظ سے فلاح و کامیابی حاصل کرنے والا ہے جو آج اس جہاں فانی کی نعمتوں، خوشیوں اور کامیابیوں سے خود جھولی بھر بھر کر، دوسروں میں بانٹ کر ان کے ذریعہ اپنے آنے والے کل کی کامیابی کے لیےآگے (جہان ابد) بھیجتا جائے کیونکہ مرنے پر کوئی اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا ۔ خالی ہاتھ ہی جانا پڑتا ہے ۔
نئی زندگی کا آغاز کیجیے نئے عزم و ہمت و حوصلہ سے کیونکہ آگے نئی بہاریں آپ کی منتطر ہیں اور تھوڑی سی جنوری کی سردی بھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحرش سحر
 

عرفان سعید

محفلین
دنیا کے وہ خطے جہاں شدید برف پڑتی ہے اور سردی کا دورانیہ طویل ہوتا ہے نجانے ان پر کیا گزرتی ہوگی؟
فن لینڈ میں تو کافی طویل دورانیہ ہے۔ پھر شدید سردی کے ساتھ ساتھ ،قطب شمالی کے نزدیک ہونے کے باعث، دن کا انتہائی مختصر دورانیہ۔ سورج کی شکل شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے اور اس پر مزید یہ کہ انتہائی تاریک اور طویل راتیں۔
لیکن اس سال دفتری اور نجی کاموں میں اتنی مشغولیت رہی کہ ابھی تک ذرہ برابر اداسی نہیں ہوئی!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
۔ سورج کی شکل شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے اور اس پر مزید یہ کہ انتہائی تاریک اور طویل راتیں۔
ناروے ، سویڈن میں بھی اس حوالہ سے صورت حال کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ ساری سردیاں سورج کی ایک کرن کو ترس جاتےہیں۔ وٹامن ڈی کیلئے گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔
1200px-Arctic_circle.svg.png
 
Top