یہ دل ہر طرح کوشش کر رہا ہے
نہ جانے کس میں اب اس کی رضا ہے
نہیں دیکھا جسے اب تک کسی نے
مجھے وہ دیکھا دیکھا لگ رہا ہے
خدا جانے کہ ہے اپنی غرض کچھ
کہ سچ میں دل مرا اس پر فدا ہے
گزاری عمر جس کی جستجو میں
وہ اب تک لاپتے کا لاپتا ہے
کب آئی رات کیا جانوں میں مجنوں
مجھے کیا علم کیسا دن چڑھا ہے
ہر اک لمحہ مجھے مستی ہے لاحق
یہ دنیا میری خاطر میکدہ ہے
وہ جس نے مجھ کو دیوانہ بنایا
وہی اب ہوش بھی کچھ بخشتا ہے
بس اپنے دوستوں میں مجھ کو رکھ لے
مری اس دوست سے یہ التجا ہے
اک اس کا نام لینا ہے مجھے، اور
یہ ساری زندگی میں کام کیا ہے
آخری تدوین: