کاشفی
محفلین
غزل
(معراج فیض آبادی)
یہ دنیا عالمِ وحشت میں کیا کیا چھوڑ دیتی ہے
سمندر کی محبت میں کنارا چھوڑ دیتی ہے
بھروسہ کیا کریں اس زندگی کا، یہ تو انساں کو
فنا کی وادیوں میں لا کہ تنہا چھوڑ دیتی ہے
خُدا محفوظ رکھے ایسی مجبوری سے ہم سب کو
جو مجبوری پڑوسی کا جنازا چھوڑ دیتی ہے
غریبی وہ برائی ہے وہ مجبوری کا سودا ہے
کہ کوڑے دان میں ماں اپنا بچہ چھوڑ دیتی ہے
ہمارے واسطے پانی پہ پہرا کیا بٹھاؤ گے
ہماری تشنگی تو خود ہی دریا چھوڑ دیتی ہے
(معراج فیض آبادی)
یہ دنیا عالمِ وحشت میں کیا کیا چھوڑ دیتی ہے
سمندر کی محبت میں کنارا چھوڑ دیتی ہے
بھروسہ کیا کریں اس زندگی کا، یہ تو انساں کو
فنا کی وادیوں میں لا کہ تنہا چھوڑ دیتی ہے
خُدا محفوظ رکھے ایسی مجبوری سے ہم سب کو
جو مجبوری پڑوسی کا جنازا چھوڑ دیتی ہے
غریبی وہ برائی ہے وہ مجبوری کا سودا ہے
کہ کوڑے دان میں ماں اپنا بچہ چھوڑ دیتی ہے
ہمارے واسطے پانی پہ پہرا کیا بٹھاؤ گے
ہماری تشنگی تو خود ہی دریا چھوڑ دیتی ہے