یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا؟





شُکر اور شکرئیے کا مقام ہے کہ اس بار مفکرِ پاکستان، شاعرِ ملت حضرتِ علامہ اقبالؒ کی تقریباتِ سالگرہ ایک ہی دن، ایک ہی وقت میں نہیں ہوئیں، بلکہ 9 نومبر 2012ءکو جناب عارف نظامی کی طرف سے اور پھر 11 نومبر 2012ءکو جناب مجید نظامی کی طرف سے یہ تقاریب منعقد ہوئیں۔ پہلی تقریب میں عمران خان نے خاصا رش لیا، جبکہ دوسری تقریب میں خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور اعجاز الحق نے مجمع اکٹھا کیا، مگر مجمع کے لحاظ سے بلاشبہ عمران خان سبقت لے گئے۔ مقالہ نگاروں کی ٹیم دونوں طرف دیسی ہی تھی، جیسی ہر سال ہوتی تھی تاہم وقت اور دن کا تصادم نہ ہونے کے سبب دو مختلف دنوں میں ایک ہی مقام پر خاصے معقول، شیدائیان اقبال نے مقررین سے استفادہ کیا۔ ایسے ہی موقع پر ایک مشہور شعر درست شکل میں یوں پڑھا جا سکتا ہے:
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا
مختلف ٹی وی چینلز کے ”اینکرپرسن“ اور ”اینکریوں“ کو بھی عجب سوجھی۔ ایک معروف چینل کے لئے ایک ”اینکر“ خاتون مائیک پکڑے اسمبلی ہال سے باہر کھڑی ہوگئیں اور 9 نومبر یعنی یومِ ولادتِ اقبالؒ کے حوالے سے رہنمایانِ قوم ایم پی اے حضرات و خواتین سے اقبال کا کوئی شعر سنانے کی فرمائش کرتی رہیں۔ اکثریت نے منہ پھیر لیا، گویا اقبالؒ کا شعر پوچھ کر ”اینکری“ نے کوئی کڑوی کسیلی بات کر دی ہو، ایک آدھ نے سنایا بھی تو وہی گِھسا پٹا، غلط طور پر منسوب شعر:
تُندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصے سے مَیں یہ شعر حضرت علامہ سے چھڑوانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں کہ یہ شعر صادق سیالکوٹی [سید صادق حسین کاظمی ایڈووکیٹ شکر گڑھ] کا ہے۔ اُنہوں نے میرے ایماءپر غالباً 1976ءمیں اپنا مختصر سا مجموعہ ”برگ سبز“ کے نام سے فیروز سنز لاہور سے چھپوا دیا تھا، جو نایاب ہوگیا تو مَیں نے اُن کے صاحبزادے شوکت کاظمی (C.S.P) کی اجازت سے اسلام آباد میں ماڈرن بُک ڈپو سے چھپوا دیا، لیکن ظلم یہ ہُوا کہ شوکت کاظمی نے جو خود بھی شاعر ہیں اور مختلف اخبارات میں قطعہ بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اپنے والد کے مطبوعہ کلام کو سنسر کر دیا۔ نجانے کیوں انہوں نے اپنے والدِ گرامی کی عہد جوانی کی رومانی غزلوں، نظموں پر قینچی پھیر دی....یہ ”پر قینچ“ مجموعہ بھی اب نایاب ہے۔ میری ذاتی لائبریری میں یہ دونوں مجموعے موجود تھے۔ ”تھے“ کا صیغہ اس لئے کہ راولپنڈی میں محفوظ یہ لائبریری بھی غاصبانہ قابضوں کی دست بُرد سے تباہ ہو رہی ہے۔ یہ اندوہناک احوال پھر کبھی سہی!
اس وقت تو کچھ غلط بخشی اور غلطی ہائے اشعار کی تصحیح مقصود ہے کہ اس قبیل کے کالم کو قارئین بہت پسند کرتے ہیں اور زیادہ وقت گزر جائے تو فون کر کے ایس ایم ایس بھیج کے اور زبانی کلامی اصرار کر کے توجہ دلاتے ہیں کہ مَیں آخر کیوں نہیں لکھ رہا؟.... سو پھر حاضر ہوں!
روزنامہ ”ایکسپریس“ کی اشاعت 11 نومبر2012ءمیں ڈاکٹر ابو اعجاز رستم نے اپنے مضمون ” پُر اسرار بندے“ میں حضرت علامہ اقبالؒ کا ایک بہت ہی مشہور شعر اس طرح رقم کیا ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جبکہ حضرت علامہ اقبالؒ نے پہلے مصرعے کی ابتداءمیں ”وہ“ نہیں کہا بلکہ ”یہ“ کہہ رکھا ہے، اسی طرح دوسرے مصرعے میں ”سجدوں“ نہیں ”سجدے“ کہا تھا، سجدے کے ساتھ صحیح شعر یوں ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
فرزندِ اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبالؒ نے اپنی خود نوشت ”اپنا گریباں چاک“ میں غالب کے کلام سے وابستگی و شفیتگی کے سلسلے میں خاصی لمبی چوڑی خامہ فرسائی کی ہوئی ہے، تاہم پوری کتاب میں غالب کے محض دو شعر استعمال کئے جو دونوں غلط تھے۔ اسی کالم میں مدتوں پہلے ہم نے نشاندہی کر دی تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے مکتوب گرامی بنام ناصر زیدی میں اس کوتاہی کا ملبہ نظر ثانی کرنے والے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پر ڈالتے ہوئے غلطی کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔ اب چھٹے ساتویں ایڈیشن میں دو میں سے ایک شعر پھر جوں کا توں موجود ہے کہ:
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
جبکہ ہر عہد پر غالب، میرزا اسد اللہ خان غالب نے ”بنا ہے“ نہیں ”ہُوا ہے“ کہہ رکھا ہے۔ صحیح شعر یوں ہے:
ہُوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
ماہنامہ ”کشمیر الیوم“ راولپنڈی کے شمارہ نومبر 2012ءمیں ”اُردو زبان“ کے عنوان سے کسی فاضل مضمون نگار ماجد جہانگیر کا مضمون شائع ہُوا ہے،مضمون کا آغاز ایک بہت ہی مشہور شعر سے کیا گیا ہے مگر اس طرح:
اُردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اور پھر اس غلط سلط شعر کو حضرت جوش ملیح آبادی کے نام لگا دیا گیا ہے جبکہ یہ شعر نواب مرزا خاں داغ دہلوی کا ہے اور صحیح شکل و صورت میں یوں ہے:
اُردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ہفت روزہ ”لاہور“ کی اشاعت 26 مئی تا یکم جوان 2012ءمیں مطبوعہ ایک مضمون بعنوان”28 مئی 2010ءکی یاد میں“ نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نگار پروفیسر مرزا لطیف احمد نے اپنے متذکرہ مضمون میں ایک بہت ہی مشہور شعر، بغیر شاعر کے نام کے اس طرح تحریر کیا ہے:
جس شان سے وہ مقتل کو گیا وہ شان رہنے والی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
یقیناً اس شکل و صورت میں اپنا شعر پڑھ کر جناب فیض احمد فیض کی رُوح تڑپ اٹھی ہوگی۔ مداحینِ فیض کے ذوقِ سلیم کو جو جھٹکا لگا وہ الگ، فیض صاحب کا صحیح شعر نوٹ کر لیجئے:
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
راولپنڈی کے بزرگ شاعر جناب سرور انبالوی کا ایک مضمون ”فرزانہ جاناں کی غزل گوئی“ کے عنوان سے ماہنامہ ”تعمیرِ ادب“ لیہ [مظفر گڑھ] کی اشاعت جولائی اگست2012ءمیں نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نویس نے ایک بہت ہی مشہور شعر، بغیر شاعر کے نام کے، وسطِ مضمون میں استعمال کیا ہے اور اس شکل میں:
صرف سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
پھرکہیں ہوتی ہے اک مصرعہ تر کی صورت
جبکہ اکثر اوقات مولانا الطاف حسین حالی سے منسوب کِیا جانے والا یہ مشہور حضرت امیر مینائی کا ہے اور صحیح اس طرح ہے:
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اِک مصرعہ تر کی صورت
ہفت روزہ ”لاہور“ کی اشاعت 26 مئی 2012ءمیں مرزا خلیل احمد قمر کا ایک بھرپور تبصرہ شامل اشاعت ہے جو داو¿د طاہر کی کتاب ”ارمغانِ ملتان“ کے حوالے سے ہے۔ فاضل مضمون نویس نے اپنے مضمون کا اختتام یوں کیا ہے۔ ملتان کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
چار چیز است تحفہءملتان
گرمی، گرد، گدا، گورستاں
جبکہ یہ مشہور زمانہ پھبتی نما شعر صحیح اس طرح ہے:
چہار چیز است تحفہءملتان
گرد، گرما، گدا و گورستان
تحریر: ناصر زیدی
بشکریہ
روزنامہ پاکستان 18 نومبر 2012
 
Top