تبسم یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ
یہ جامِ مے خوشگوار، اللہ اللہ

اُدھر ہیں نظر میں نظارے چمن کے
اِدھر رُوبرو رُوئے یار، اللہ اللہ

اُدھر جلوۂ مضطرب، توبہ توبہ
اِدھر یہ دلِ بے قرار، اللہ اللہ

وہ لب ہیں کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زلفیں ہیں یا خلد زار، اللہ اللہ

میں اِس حالتِ ہوش میں مست و بیخود
وہ مستی میں بھی ہوشیار، اللہ اللہ

(امیر خسرو کی ایک فارسی غزل کا منظوم ترجمہ از صوفی تبسّم)
 
یہ کافی دن سے ڈھونڈ رہا تھا یاد نہیں آرہی تھی۔
شکریہ فرخ منظور صاحب۔
ایک غالب کی غزل بھی ہے، شاید اس کے بول کچھ یہ ہیں:
"کہ تماشا کہیں جسے"
شروع کے لفظ یاد نہیں۔ اگر ممکن ہو سکے تو وہ بھی شئیر کیجیے گا۔ وہ بھی پی ٹی وی پر آتی تھی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ کافی دن سے ڈھونڈ رہا تھا یاد نہیں آرہی تھی۔
شکریہ فرخ منظور صاحب۔
ایک غالب کی غزل بھی ہے، شاید اس کے بول کچھ یہ ہیں:
"کہ تماشا کہیں جسے"
شروع کے لفظ یاد نہیں۔ اگر ممکن ہو سکے تو وہ بھی شئیر کیجیے گا۔ وہ بھی پی ٹی وی پر آتی تھی۔

انیس صاحب، یہ بھی تو بتائیے کہ گلوکار کون تھا جس نے یہ غزل گائی تھی۔
 
تسلیمات ،
کیا امیر خُسرو کی فارسی غزل ، مندرجہ بالا میں جس کا منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے، مہیا ہو سکتی ہے ؟
 
تسلیمات ،
کیا امیر خُسرو کی فارسی غزل ، مندرجہ بالا میں جس کا منظوم ترجمہ پیش کیا گیا ہے، مہیا ہو سکتی ہے ؟

اے ہمارے ہم نام دوست خلیل الرّحمٰن بھائی، فارسی غزل تو فارسی دان آپ کے لیے ڈھونڈ ہی دیں گے، اسی دوران ہم نے اس کا اردِش ترجمہ کردیا ہے، ملاحظہ فرمائیے
 

فرخ منظور

لائبریرین
خسرو فارسی غزل

ماییم و شبی و یار در پیش
جام می خوشگوار در پیش
وقت چمن و شکفته باغی
بی زحمت خارخار در پیش
گل آمده و خزان گشته
دی رفته و نوبهار در پیش
من بیهش و مست یار و یارم
نی مست و نه هوشیار در پیش
دستم به لب و نظر به رویش
می بر کف و لاله زار در پیش
رفت آنکه چو غنچه بود یک چند
در بسته و پرده دار در پیش
امروز چو شاخ گل به صد لطف
آمد ز برای یار در پیش
ای دور فلک، اگر ترا هست
وقتی به ازین بیار در پیش
مست حق را که هست با دوست
زین گونه هزار کار در پیش
خسرو، می ناب کش که زین پس
نارد فلکت خمار در پیش
 
Top