یہ زلزلے : قیامت کی نشانی توکل علی اللہ

پردیسی

محفلین
یہ زلزلے : قیامت کی نشانی توکل عل

یہ زلزلے : قیامت کی نشانی توکل علی اللہ

اور مادي وسائل کا استعمال

فضیلتہ الشیخ / اسامہ الخیاط ۔حفظہ اللہ

22/ 2 / 1426 ھ 2 /4 / 2005 G​

حمد و ثناء کے بعد

خوف خدا :

اللہ کے بندو ! اس اللہ سے ڈرتے رہا کرو جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمیں کی تمام حکومتیں اور امور کی چابیاں ہیں ۔ اور اس بات کو بھی ھمیشہ یاد رکھیں کہ آپ لوگ اس دن اللہ کے حضور جوابدہی کے لئے کھڑے کئے جانے والے ھو جس دن کہ آنکھیں کھلی رہ جائيں گی اور ان کی ٹکٹکی بندھ جائيگی وہ دن جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

" جس دن کہ ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے " ۔ ( المؤمن : 52)۔

اے اللہ کے بندو ! اس دن کے لئے بھرپور تیاری کر لیں اور آپ کو اس دنیا کی چمک دمک اور خوبصورتی و زینت کہیں فریضہ نہ کر دے اور اس دنیا میں طویل عمر کا قیام آپ کو بہکا نہ دے :

" اور نہ ہی آپ کو یہ شیطان اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے اور اس سے پھسلا دے "

( لقمان : 33) ۔




غیبیات اور علامات :

مسلمانو ! اللہ تعالی حکیم و خبیر ( حکمتوں والے اور تمام خبریں رکھنے والے ) کی تقدیر و فیصلوں میں سے ہی یہ بھی ہے کہ اس نے قیامت کا وقت اپنی تمام مخلوقات سے مخفی رکھا ھوا ہے اور اسے صرف اپنی ذات گرامی تک ہی محدود رکھا ھوا ہے اور اسے ایسے غیبی امور میں کر رکھا ہے جس کا علم نہ تو کسی مقرب ترین فرشتے کو ہے اور نہ ہی کسی مبعوث کئے گئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

" ( اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! ) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب قائم ھو گی ؟ آپ کہہ دیں کہ اس کا علم میرے رب کے پاس ہے ۔ وہی اسے اس کے وقت ( مقررہ ) پر ظاھر کر دے گا وہ آسمان اور زمیں میں ایک بھاری بات ھو گی اور ناگہانی تم پر آ جائے گی ۔ یہ لوگ آپ سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں ۔ کہہ دیں کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے "۔ ( الاعراف : 187 ) ۔

دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

" لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیں کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔ اور آپ کو کیا معلوم ہے شائد قیامت قریب ہی ھو گئی ھو "۔ ( الاحزاب : 63 ) ۔

ایک تیسرے مقام پر ارشاد الہی ہے :

" اور بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمیں کی اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ، سب کی باشاھت ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے " ( الزخرف : 85) ۔

وقوع علامات : یکے از معجزات :

ہاں یہ الگ بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے عطا کردہ علم کی بناء پر قیامت کی

علامات اور نشانیاں بیان فرما دی ہیں اور وہ علامات و نشانیاں اس کے عنقریب وقوع پذیر ھونے کا پتہ دیتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت و زمانہ بہت ہی قریب آ گیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذکر کردہ ان پیشین گوئیوں کا واقع ھونا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے دلائل و معجزات میں سے ہے اور اس قیامت کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن جن باتوں کی اللہ کی طرف سے پیشین گوئی فرمائی ہے ، آپ ان میں صادق و سچے ہیں ۔

آخر زمانہ میں زلزلے اور ان میں بھی رحمت کے پہلو :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اسکے قریب زلزلوں کا وقوع بکثرت ھو جائے گا اور یہ آخر زمانہ میں ھو گا جیسا کہ صحیح بخاری و سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات بتائی ہے ۔ اللہ کے بندو ! اس میں شک و شبہ والی کوئی بات نہیں کہ یہ زلزلے بلاؤں ، مصائب و مشکلات اور آلام و تکالیف کا پیش خیمہ بنتے ہیں ، مال و دولت کا نقصان ھوتا ہے جانیں ضائع ھوتی ہیں ، فصلیں اور پھل کم ھو جاتے ہیں اور آبادیوں میں تباہی و بربادی مچ جاتی ہے اور یہ نقصانات اتنی بڑھی مقدار میں ھوتے ہیں کہ جن کا شمار و بیان نا ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ زلزلے بندوں پر اللہ کے عظیم احسانات ، وافر رحمتوں اور اس کے کرم و عنایتوں سے یکسر خالی بھی نہیں ھوتے ۔ اس حقیقت کا بیان اور اس امر کی وضاحت مسند احمد ، سنن ابوداؤد اور مستدرک حاکم کی بعض احادیث میں آئی ہے جن میں میں سے بعض کی اسناد صحیح اور بعض کی حسن درجہ کی ہیں ۔

چنانچہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" میری یہ امت اللہ کی طرف سے امت مرحومہ ہے اس پر آخرت میں عذاب نہیں ہے ۔ اس کا

عذاب اسی دنیا میں فتنوں ، زلزلوں اور قتل و غارت کی شکل میں ہی ہے "۔

( ابوداود ، مسنداحمد ، مستدرک حاکم ) ۔

شرح حدیث :

اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امت اسلامیہ کی مدح و ثناء اور تعریف کے سلسلہ میں وارد ھوئی ہے اور اس میں اس امت کے اس فضیلت والی ھونے کے ساتھ ساتھ اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی اس امت پر بہت عنایتیں اور رحم و کرم ہیں اور اس نے اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام یوں فرمایا ہے کہ اس سے وہ تمام جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیا گیا ہے جن میں وہ مقید تھے جیسے کہ ان کی توبہ یہ ھوا کرتی تھی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ، اگر کپڑے پر نجاست لگ جائے تو اتنی جگہ کو کاٹ کر پھینک ہی دیں اور مال غنیمت سے کچھ کھانا ان پر حرام کیا گیا تھا ۔ اس حدیث کا معنی یہ ھوا کہ اس امت کے اکثر افراد کو ان کے اعمال کی سزا اسی دنیا میں مصائب و مشکلات اور امراض و بیماریوں کی شکل میں دے دی جائے گی جن میں سے ہی یہ زلزلے بھی ہیں اور انہی سے ان کے گناھوں کو دھو کر انہیں پاک و صاف کر دیا جائے گا ۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بھی آیا ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوھریرہ و ابوسعید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" کسی مسلمان کو جو تھکاوٹ و بیماری ، درد و غم ، فکر و پریشانی اور تکلیف و اذیت پہنچتی ہے حتی کہ اسے جو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے ذریعے اللہ اس کے گناھوں کو مٹا دیتا ہے "۔ (بخاری و مسلم )

اس حدیث میں وارد لفظ " نصب " کا معنی ہے ، تھکاوٹ اور " وصب " سے مراد بیماری و مرض ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" اللہ جس سے بھلائی کرنا چاہے اسے مصائب و امراض میں مبتلا کر دیتا ہے " ۔

( صحیح بخاری ) ۔

معنی یہ ھوا کہ اس پر طرح طرح کے مصائب و مشکلات نازل کرتا اور اگر وہ بندہ ان پر صبر و ثبات اختیار کرے اور اللہ سے اجر و ثواب طلب کرے تو وہ اس کے لئے تمام گناھوں کا کفارہ بن جاتی ہیں ۔

شرک و کبائر اور توبہ و مشیت :

جہاں تک اہل توحید میں سے کبیرہ گناھوں کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا معاملہ ہے جو کہ توبہ کئے بغیر ہی مر گئے تو وہ مشیت الہی کے تحت ہیں ۔ اگر وہ چاہے گا تو انہیں عذاب و سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو انہیں معاف فرما دے گا "۔

چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :

" بیشک اللہ تعالی اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرایا جائے اور اس کے سوا جسے چاہے وہ بخش دیتا ہے "۔ ( النساء : 48 ) ۔

اور یہ بات اہل سنت و الجماعت کے عقائد میں طے شدہ امر ہے ۔

آفات میں عبرتیں :

خبردار رہیں ! ایک صاحب عقل و دانش مسلمان ان ناگہانی مصائب و آفات پر خوب غور و فکر کرتا اور اس بات کو یاد کر کے عبرت حاصل کرتا ہے کہ اس کے بلند و بالا رب کی قوتیں اور قدرتیں کتنی لاانتہاء ہیں جن کے مقابلے میں دوسری کوئی قوت و طاقت نہیں آ سکتی وہ چاہے کتنی ہی بڑی قدرت و سطوت ھو اور اسے اس زمیں پر چاہے کتنے ہی اسباب اقتدار و حکومت کیوں نہ حاصل ھوں ۔ اس میں تعجب والی کوئی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو القوي کی صفت سے متصف ھونا بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :

" ان لوگوں نے اللہ کی اتنی قدر نہ کی جتنی قدر کرنا اس کا حق ہے بیشک اللہ بہت ہی قوتوں والا اور غالب ہے "۔ ( الحج : 74 ) ۔

دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" اللہ تعالی نے یہ لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے بیشک اللہ بہت ہی

قوتوں والا اور غالب ہے "۔ ( المجادلہ : 21) ۔

ایک تیسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" بیشک اللہ تعالی رزق دینے والا ، قوي و زور آور اور مضبوط ہے "۔ ( الزاریات : 58 ) ۔

اللہ کا خوف اور دعائیں :

بندہ مسلم کے دل میں جب یہ بات اور معنی و مفہوم جاگزیں ھو جائے تو اس کے نتیجہ میں اللہ کی تعظیم اور اجلال و بڑائی کی بناء پر اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ھو جاتا ہے ، وہ اللہ کے سامنے خشوع و خضوع کرتا اور اس کی طرف رجوع و توجہ کرنے لگتا ہے اور اللہ کی محبت اور اس کی نعمتوں کی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے ، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کی معصیت و نافرمانی سے نفرت کرتا اور اس سے دور بھاگتا ہے اور ان سب کی وجہ سے اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ھو جاتا ہے ، اور پھر بندے کا اپنے رب کی طرف مکمل طور پر رجوع کرنا ، اس سے دعائیں مانگنا ، اس کے سامنے گڑ گڑانا ، اس کا بکثرت ذکر کرنا ، اس سے مغفرت و بخشش طلب کرنا ، اس کے بندوں پر صدقہ و خیرات کر کے ان کے ساتھ نیکی و احسان کرنا اور ان کے ساتھ دوسری نفع بخش نیکیاں سر انجام دینا ، ان سب امور کی تو ہر وقت و ھمیشہ تاکید ہے لیکن سختی و مشکل اوقات میں ان کی تاکید میں مزید اضافہ ھو جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ صبح و شام صحیح سند سے ثابت شدہ اذکار و وظائف اور دعاؤں کی بھی پابندی و التزام کیا جائے کیونکہ ان کے ذریعے بندہ مصائب و مشکلات سے بچانے والے قلعے میں داخل ھو جاتا ہے ۔ ان میں وہ اللہ سے پناہ طلب کر لیتا ہے اور اس قوی و علی ذات گرامی کی سلطنت و حکومت کی حمایت اور دفاع و بچاؤ حاصل کر لیتا ہے ۔ اور وہ تمام شرور و مصائب ، آفات و مشکلات اور شب و روز کے ناگہانی مصائب سے محفوظ ھو جاتا ہے ۔

آفت زدوں کی مدد : افضل عمل :

اس میں بھی کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آفت زدہ اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی

مدد کرنا ، مظلوموں کی داد رسی کرنا اور سخت محتاج و ضرورتمند کی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر ان کی تکلیف کی وجہ سے ابھرتی سلوٹوں کو برابر کرنا تاکہ ان کی وہ مشکلات دور ھو جو ان کے ممالک میں ناگہانی آفات کی وجہ سے رونما ھوئی ہیں اور ان کے دیار و بلاد میں یہ زلزلے آئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی امداد کرنا اللہ تعالی کے نزدیک بہت ہی افضل و پاکیزہ عمل ہے کیونکہ یہ ان نیک کاموں میں سے ہے جن کا انجام اچھا ھونا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے :

" چنانچہ مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" نیکیاں کرنا آدمی کو ذلت میں گرنے اور آفت و ھلاکتوں میں مبتلا ھونے سے بچاتی ہیں اور دنیا میں نیکی کرنے والے لوگ ہی آخرت میں اچھا بدلہ پانے والے ھوں گے "۔ ( مستدرک حاکم بسند صحیح ) ۔

جذبہ رحم و کرم کا ثبوت :

اسی طرح یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کرنے والا شخص جذبۂ رحم و کرم سے لبریز اور صفت رحمت سے متصف ہے اور ایسے شخص کے لئے اس رب کے پاس بہت ہی اجر و ثواب اور قدر و منزلت ہے ۔ چنانچہ مسند احمد سنن ، ابی داؤد اور مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" رحم و کرم کرنے والوں پر اللہ تبارک و تعالی بھی رحم و کرم فرمائے گا جو کہ انتہائی مہربان ھے ۔ اہل زمیں پر تم مہربانی کرو ، آسمان والا تم پر مہربانی کرے گا ۔

(کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ، خدا مہربان ھو گا عرش بریں پر )

اس مفہوم و معنی کی ایک اور حدیث صحیح بخاری و مسلم میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ھے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ھے :

" اللہ اپنے بندوں میں سے ان پر رحم و کرم کرتا ھے جو دوسروں پر مہربانی کرنے والے ھوتے ہیں ۔"

( بخاری و مسلم )

اس طرح صحیح بخاری و مسلم میں حضرت جرم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ھے :

" جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ، اس پر اللہ رحم نہیں کرتا ۔" ( بخاری و مسلم )

ایسے ہی ابوداؤد ، ترمذی ، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

" جذبہ رحم و کرم صرف سنگدل سے ہی نکالا جاتا ھے ۔"

(ابوداؤد ، ترمذی ، ابن حبان اور مستدرک حاکم )

اللہ تعالی نے سچ ہی فرمایا ھے :

" اور زمیں میں اصلاح ھو چکنے کے بعد خرابی و فساد نہ مچاؤ اور اللہ کا خوف کھاتے ھوئے اور اس سے امیدیں وابستہ کر کے دعائيں مانگتے رہنا اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ھے ۔" (الاعراف : 56 )

مادی وسائل کا استعمال :

اللہ والو ! اللہ تعالی سے التجائيں کرنا ، اسکی طرف کمال توجہ کرنا ، صدق دل سے اسکے سامنے گڑگڑانا اور اس پر مکمل توکل و بھروسہ کرنا مادی و دنیوی اسباب و ذرائع کو اختیار کرنے کے منافی نہیں ھے وہ اسباب جنکی بدولت اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ مکروہ و ناپسندیدہ چيز کا دفعیہ شر و مصیبت سے دفاع اور خطرات کو دور ہٹانے کی بھرپور توقع ھو ، اس طرح انکے ذریعے مصائب کے اثرات کو کم کرنے ، ان زلزلوں اور دوسری ناگہانی مصیبتوں آفتوں کے نتیجہ میں رونما ھونے والی بلاؤں اور مشکلات و تنگیوں کو گھٹانے کی امید ھو جیسے کہ بطور مثال ایسے آلات کی ایجاد و استعمال ھے جو کہ قبل از وقت وارننگ دیں اور خطرے کی آمد سے خبردار کر دیں اور اسی طرح کے دوسرے آلات اور سائنسی ایجادات ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں بھی تو دراصل اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ہی ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے تیار فرمائی ہیں اور انہیں انکی طرف ہدایت و راہنمائی کی ھے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہی انسان کو وہ کچھ سکھلایا ھے جسے وہ نہیں جانتا ۔

تقدیر سے تقدیر کی طرف :

کوئی مسلمان اللہ تعالی کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کے سوا کسی دوسری جگہ نہیں جاتا جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے اس وقت مخاطب ھو کر فرمایا تھا جب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لوگوں کو ان علاقوں میں داخل ھونے سے روکنے پر تعحب کیا تھا جن میں طاعون کا مرض پھیلا ھوا تھا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

" اے امیر المومنین ! کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے اور راہ فرار اختیار کرتے ھوئے وہاں نہ جائيں ؟ اس پر حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیتے ھوئےفرمایا تھا :

" اے ابو عبیدہ ! کاش کہ یہ بات آپ کے سوا کسی دوسرے نے کہی ھوتی ( یعنی آپ جیسے سمجھدار شخص سے اسکی توقع نہ تھی ) جی ہاں ! ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر بھی اللہ کی تقدیر کی طرف ہی جاتے ہیں ۔ کیا خیال ھے اگر آپ کے پاس اونٹ ھوں اور آپ کسی ایسی وادی میں اتریں جسکے دو کنارے ھوں ایک سرسبز و شاداب اور دوسرا بنجر و بے آباد ۔ اگر آپ نے اپنے اونٹوں کو شاداب وادی میں چرنے کے لیے چھوڑا تو یہ بھی اللہ کی طرف سے (تقدیر ) ھے اور اگر آپ نے بنجر حصے میں انہیں چھوڑ دیا تو یہ بھی اللہ کی طرف سے لکھا ھوا (تقدیر ) ھے ۔ اسی دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے جو کہ کسی کام کی غرض سے کہیں گئے ھوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس موضوع کے بارے میں معلومات موجود ہیں ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ھوئے سنا ھے :

" اگر تم یہ سنو کہ فلاں علاقے میں یہ ( مرض طاعون ) پھیلا ھوا ھے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں یہ پھیل چکا ھو تو تم وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے باہر نہ نکلو ۔"

یہ حدیث سن کر حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد بیان کی اور شکر بجا لائے اور پھر وہاں سے چلے گئے ۔" ( صحیح بخاری و مسلم ۔ یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں )

اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور عباد الرحمن ( اللہ والوں ) میں سے برگزیدہ لوگوں کی اقتداء و پیروی کرو اور انہی کی طرح اللہ تعالی کی طرف کمال درجے کا رجوع کرو ، اس پر توکل و بھروسہ کرو ، اسی کے سامنے خوب گڑگڑایا کرو اور اسی کی طرف انابت و توجہ کرو اور اس کے ساتھ ہی وہ دنیوی و مادی اسباب بھی اختیار کر لیا کرو جنہیں اللہ نے تمہارے لیے پیدا فرمایا ھے اور اپنے فضل و کرم اور احسان عظیم سے تمہیں انکی طرف ہدایت کی اور راہنمائی فرمائی ھے ۔

وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین

سبحان ربك رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین

و الحمد للہ رب العالمیں
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت خوب ہے۔ اور توکل علی اللہ نہایت ضروری ہے ۔ایک بات کہنا ضروری ہے۔کہ ابتدائے پیغام میں صرف حمد وثنا لکھنے کے بجائے حمدیہ و ثنائیہ کلمات لکھ دیا کریں تو بہترین ہے۔
 
Top