الف عین
لائبریرین
یہ سب آوازیں میری ہیں
’’ حرفِ سادہ‘‘
احمد فرازؔ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض ؔ صاحب علامہ اقبالؔ کے فارسی کلام کا منظوم اُردو ترجمہ کررہے تھے۔ فیضؔ صاحب سے بے پناہ عقیدت کے باوجود کسی حد تک میں بے تکلف بھی تھا۔ ایک روز میں نے ان سے عرض کیا کہ ’’ آپ ان تراجم میں اپنا وقت کیوں صرف کررہے ہیں۔ یہ کام تو دوسرے لوگ بھی انجام دے سکتے ہیں‘‘ آپ کے بے شمار مداح اور عقیدتمند آپ کی تازہ تخلیقات کے لئے ترستے رہتے ہیں ‘ عالم یہ ہے کہ اگر کوئی کہیں سے آپ کا نیا شعر یا مصرع سُن لے تو بطور سوغات دوسرے شہروں اور دوستوں تک پہنچانے کے لئے بے قرار رہتا ہے ‘‘ فیض احمد نے ہمیشہ کی طرح مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا’’ کیا تم پر کبھی شعر گوئی میں barren period نہیں گزرا بانجھ پن کا ایسا وقت جو بعض اوقات مہینوں پر پھیل جاتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا’’کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ طویل عرصہ تک ایک مصرع بھی نہیں کہا‘‘ تو پھر زمانہ میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے۔ جنگ ہونہ ہو سپاہی کو اپنے ہتھیارصیقل رکھنے چاہئیں۔
’’سب آوازیں میری ہیں‘‘ کے تراجم محض تخلیقی ہتھیاروں کو صیقل رکھنے کی غرض سے ہی نہیں کئے گئے بلکہ کچھ اور محرکات بھی تھے ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں خود ان ہی حالات سے گزررہا ہوں جن سے بیشتر افریقی جلا وطن شاعر دو چارہیں اور اپنی سر زمین سے دور اپنے لوگوں کی انقلابی جدوجہد میں قلمی حوالے سے شریک ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے تاریخی اور سیاسی کوائف مختلف ہوتے ہوئے بھی کئی طرح کی مماثلت رکھتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت نے جس ظلم اور ڈھٹائی سے مقامی سیاہ فام اکثریت کو انسانی توقیر اور حقوق سے محروم کر رکھا ہے اسی طرح پاکستان میں فوجی آمریت نے بھی ظالمانہ اور غاصبانہ رویہ سے اپنے ہی لوگوں کو محکوم بنا رکھا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں بندوں کو لبلبی پر گولی اُنگلیوں کی جنبش حریت پسندوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے اور پاکستان میں جمہوریت پسند دانشوروں‘ سیاسی کارکنوں ‘ صحافیوں اور طلبہ کا لہو زمین کا رزق بن رہا ہے۔غالباً یہی بنیادی وجہ ہے کہ افریقی شاعری موضوعات کی حیرت انگیز مماثلت کے سبب پاکستان کے حالات کی بھی عکاسی معلوم ہوتی ہے۔
ایک مقصد یہ بھی پیش نظر تھا کہ جنوبی افریقہ کی بڑی اور سچی شاعری کو اُردو طبقہ سے بالعموم اور پاکستان کے ادیبوں ‘ شاعروں سے بالخصوص روشناس کرایا جائے۔ ساتھ ہی یہ احساس دلانا بھی مقصود ہے کہ جب خلقِ خدا نظم اور استحصال کے خلاف نبردآزما ہو اور لوگ اپنے حقوق کی باز یابی کے لئے جانیں تک قربان کررہے ہوں تو لکھنے والوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس تناظر میں ان کا کیا کردار ہونا چاہئے۔
میں اپنے مختصر پیش لفظ کو افریقی ادیب کے اس جملہ پر ختم کرتا ہوں ’’صرف قیدی پرندہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیوں نغمہ سرا ہے۔‘‘
***
***
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیربہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
اب تیرا کر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
***
روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتا تھا
اے مرے شہرِ پشاور تری یاد آئی بہت
***
تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر،خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
اس قدر دنیا کے دکھ اے خوبصورت زندگی
جس طرح تتلی کوئی مکڑی کے جالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نوردِ شوق!کوئے یار تک
کچھ نے کچھ رنگ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے
ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں ،کیا ہیں،کہاں ہیں ،ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے
عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فرازؔ
پھر بھی ہم اہل محبت کی مثالوں میں رہے
***
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
***
اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
***
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں گرم تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ میکشی رہی
اس نے جو پھیرلی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کرکے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
***
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرناجاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
***
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجالی جائے
یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے
رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے
مصحف رخ ہے کسی کا کہ بیاضِ حافظ
ایسے چہرے سے کبھی فال نکالی جائے
وہ مروت سے ملا ہے تو جھکادوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے
بے نوا شہر کا سایہ ہے مرے دل پہ فرازؔ
کس طرح سے مری آشفتہ خیالی جائے
***
منصف
http://www.munsifdaily.com/adab.html
’’ حرفِ سادہ‘‘
احمد فرازؔ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض ؔ صاحب علامہ اقبالؔ کے فارسی کلام کا منظوم اُردو ترجمہ کررہے تھے۔ فیضؔ صاحب سے بے پناہ عقیدت کے باوجود کسی حد تک میں بے تکلف بھی تھا۔ ایک روز میں نے ان سے عرض کیا کہ ’’ آپ ان تراجم میں اپنا وقت کیوں صرف کررہے ہیں۔ یہ کام تو دوسرے لوگ بھی انجام دے سکتے ہیں‘‘ آپ کے بے شمار مداح اور عقیدتمند آپ کی تازہ تخلیقات کے لئے ترستے رہتے ہیں ‘ عالم یہ ہے کہ اگر کوئی کہیں سے آپ کا نیا شعر یا مصرع سُن لے تو بطور سوغات دوسرے شہروں اور دوستوں تک پہنچانے کے لئے بے قرار رہتا ہے ‘‘ فیض احمد نے ہمیشہ کی طرح مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا’’ کیا تم پر کبھی شعر گوئی میں barren period نہیں گزرا بانجھ پن کا ایسا وقت جو بعض اوقات مہینوں پر پھیل جاتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا’’کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ طویل عرصہ تک ایک مصرع بھی نہیں کہا‘‘ تو پھر زمانہ میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے۔ جنگ ہونہ ہو سپاہی کو اپنے ہتھیارصیقل رکھنے چاہئیں۔
’’سب آوازیں میری ہیں‘‘ کے تراجم محض تخلیقی ہتھیاروں کو صیقل رکھنے کی غرض سے ہی نہیں کئے گئے بلکہ کچھ اور محرکات بھی تھے ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں خود ان ہی حالات سے گزررہا ہوں جن سے بیشتر افریقی جلا وطن شاعر دو چارہیں اور اپنی سر زمین سے دور اپنے لوگوں کی انقلابی جدوجہد میں قلمی حوالے سے شریک ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے تاریخی اور سیاسی کوائف مختلف ہوتے ہوئے بھی کئی طرح کی مماثلت رکھتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیت نے جس ظلم اور ڈھٹائی سے مقامی سیاہ فام اکثریت کو انسانی توقیر اور حقوق سے محروم کر رکھا ہے اسی طرح پاکستان میں فوجی آمریت نے بھی ظالمانہ اور غاصبانہ رویہ سے اپنے ہی لوگوں کو محکوم بنا رکھا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں بندوں کو لبلبی پر گولی اُنگلیوں کی جنبش حریت پسندوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے اور پاکستان میں جمہوریت پسند دانشوروں‘ سیاسی کارکنوں ‘ صحافیوں اور طلبہ کا لہو زمین کا رزق بن رہا ہے۔غالباً یہی بنیادی وجہ ہے کہ افریقی شاعری موضوعات کی حیرت انگیز مماثلت کے سبب پاکستان کے حالات کی بھی عکاسی معلوم ہوتی ہے۔
ایک مقصد یہ بھی پیش نظر تھا کہ جنوبی افریقہ کی بڑی اور سچی شاعری کو اُردو طبقہ سے بالعموم اور پاکستان کے ادیبوں ‘ شاعروں سے بالخصوص روشناس کرایا جائے۔ ساتھ ہی یہ احساس دلانا بھی مقصود ہے کہ جب خلقِ خدا نظم اور استحصال کے خلاف نبردآزما ہو اور لوگ اپنے حقوق کی باز یابی کے لئے جانیں تک قربان کررہے ہوں تو لکھنے والوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس تناظر میں ان کا کیا کردار ہونا چاہئے۔
میں اپنے مختصر پیش لفظ کو افریقی ادیب کے اس جملہ پر ختم کرتا ہوں ’’صرف قیدی پرندہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیوں نغمہ سرا ہے۔‘‘
***
***
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیربہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
اب تیرا کر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
***
روم کا حسن بہت دامن دل کھینچتا تھا
اے مرے شہرِ پشاور تری یاد آئی بہت
***
تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر،خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
اس قدر دنیا کے دکھ اے خوبصورت زندگی
جس طرح تتلی کوئی مکڑی کے جالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نوردِ شوق!کوئے یار تک
کچھ نے کچھ رنگ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے
ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں ،کیا ہیں،کہاں ہیں ،ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے
عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فرازؔ
پھر بھی ہم اہل محبت کی مثالوں میں رہے
***
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
***
اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
***
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں گرم تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ میکشی رہی
اس نے جو پھیرلی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کرکے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
***
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرناجاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
***
دل گرفتہ ہی سہی بزم سجالی جائے
یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے
رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے
مصحف رخ ہے کسی کا کہ بیاضِ حافظ
ایسے چہرے سے کبھی فال نکالی جائے
وہ مروت سے ملا ہے تو جھکادوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے
بے نوا شہر کا سایہ ہے مرے دل پہ فرازؔ
کس طرح سے مری آشفتہ خیالی جائے
***
منصف
http://www.munsifdaily.com/adab.html