امین عاصم
محفلین
احباب کی خدمت میں ایک غزل پیش ِ خدمت ہے۔
یہ سمندر ہے نہ صحرا کی طرح ہے اے دوست
وقت بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے اے دوست
میرے دامن کی خدا خیر کرے، اک دنیا
میرے پیچھے تو زلیخا کی طرح ہے اے دوست
قیس و رانجھا ہے مکیں جس میں، وہ کاشانہء دل
جھنگ اور قریۂ لیلیٰ کی طرح ہے اے دوست
مہرباں حد سے زیادہ تو کبھی یوں ہی خفا
کیا کہوں، تو بھی تو دنیا کی طرح ہے اے دوست
وقت نے پھینک دِیا ہجر کے غم خانوں میں
اب تری یاد ہی پرسا کی طرح ہے اے دوست
دے کے آواز بلاؤں گا لپٹ جاؤں گا
غم مجھے ایسے شناسا کی طرح ہے اے دوست
جب حسیں کوئی نظر آئے ، لرز اٹھتا ہے
دل بھی اک صاحبِ تقویٰ کی طرح ہے اے دوست
حال کچھ یوں ہے مرا، یاد کسی کی عاصم
اب مجھ ساغر و مینا کی طرح ہے اے دوست
امین عاصم
یہ سمندر ہے نہ صحرا کی طرح ہے اے دوست
وقت بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے اے دوست
میرے دامن کی خدا خیر کرے، اک دنیا
میرے پیچھے تو زلیخا کی طرح ہے اے دوست
قیس و رانجھا ہے مکیں جس میں، وہ کاشانہء دل
جھنگ اور قریۂ لیلیٰ کی طرح ہے اے دوست
مہرباں حد سے زیادہ تو کبھی یوں ہی خفا
کیا کہوں، تو بھی تو دنیا کی طرح ہے اے دوست
وقت نے پھینک دِیا ہجر کے غم خانوں میں
اب تری یاد ہی پرسا کی طرح ہے اے دوست
دے کے آواز بلاؤں گا لپٹ جاؤں گا
غم مجھے ایسے شناسا کی طرح ہے اے دوست
جب حسیں کوئی نظر آئے ، لرز اٹھتا ہے
دل بھی اک صاحبِ تقویٰ کی طرح ہے اے دوست
حال کچھ یوں ہے مرا، یاد کسی کی عاصم
اب مجھ ساغر و مینا کی طرح ہے اے دوست
امین عاصم