مہدی نقوی حجاز
محفلین
غزل
یہ سوچتا ہوں کہ بابِ فرقت میں لکھوں کوئی کتاب یارو
کہ رات بھر دیکھتا رہا ہوں، وصالِ جاناں کے خواب یارو
مرا یقیں ہے کہ ایک نشے کا توڑ ہے دوسری خماری
کہ چڑھ رہا ہے خمارِ ہستی، کچھ اور بھر دو شراب یارو
جو اس نے مجھ پر کرم کیا ہے تو کانپ اٹھا ہے وجود سارا
جو ایسا ہے لطف کا کرشمہ، تو کیسا ہوگا عتاب یارو
میں چاہتا ہوں کہ خود بھی جھوموں، فرشتے بھی مست ہوں، لحد پر
شراب تھوڑی انڈیل دینا بجائے عرقِ گلاب یارو
جہاں بھی جاتا ہوں آجکل میں، تو پیش کرتے ہیں لوگ پانی
یہ رسم ہے، انقلاب لاؤ، پلاؤ مجھ کو شراب یارو
حساب اے ملکی پیشواؤ، حساب اے دین کے خداؤ
چلو تمہیں پیش کردو اپنے دیے غموں کا حساب یارو
جو بچپنا تھا حجازؔ کا وہ تو بچپنے ہی میں روٹھا لیکن
تلاشِ پیری میں لگ گیا ہے، تمام عہدِ شباب یارو!
مہدی نقوی حجازؔ
یہ سوچتا ہوں کہ بابِ فرقت میں لکھوں کوئی کتاب یارو
کہ رات بھر دیکھتا رہا ہوں، وصالِ جاناں کے خواب یارو
مرا یقیں ہے کہ ایک نشے کا توڑ ہے دوسری خماری
کہ چڑھ رہا ہے خمارِ ہستی، کچھ اور بھر دو شراب یارو
جو اس نے مجھ پر کرم کیا ہے تو کانپ اٹھا ہے وجود سارا
جو ایسا ہے لطف کا کرشمہ، تو کیسا ہوگا عتاب یارو
میں چاہتا ہوں کہ خود بھی جھوموں، فرشتے بھی مست ہوں، لحد پر
شراب تھوڑی انڈیل دینا بجائے عرقِ گلاب یارو
جہاں بھی جاتا ہوں آجکل میں، تو پیش کرتے ہیں لوگ پانی
یہ رسم ہے، انقلاب لاؤ، پلاؤ مجھ کو شراب یارو
حساب اے ملکی پیشواؤ، حساب اے دین کے خداؤ
چلو تمہیں پیش کردو اپنے دیے غموں کا حساب یارو
جو بچپنا تھا حجازؔ کا وہ تو بچپنے ہی میں روٹھا لیکن
تلاشِ پیری میں لگ گیا ہے، تمام عہدِ شباب یارو!
مہدی نقوی حجازؔ