نیرنگ خیال
لائبریرین
عہد حاضر بلاشبہ خون ریزی و فساد کا دور ہے۔ جدھر جدھر نگاہ جاتی ہے لاشے نظر آتے ہیں۔ کوئی سر بریدہ بچہ تو کوئی جسم بریدہ بوڑھا۔ کہیں خون کا تالاب تو کہیں اعضاء در و دیوار سے چپکے ہوئے۔ کوئی زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ تو کوئی بیٹا اپنی ماں کی لاش کے پاس اس امید سے بیٹھا ہے کہ ابھی ماں اٹھ کر اس کو سینے سے لگا لے گی۔ اس ظالم و جابر دنیا کے ظلم و جبر سے بچا لے گی۔ کوئی زخمی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی آنتوں کو سنبھالے ہے۔ تو کوئی اپنے ہی زخم پر مرحم رکھنے کے واسطے بھی دوسرے ہاتھ کا محتاج ہے۔ کوئی کافر ہونے کے ارزاں فتوے کا شکار ہے تو کوئی خود کو مسیح اور دوسروں کو دجال سمجھے دنیا کو پاک کرنے کے کام پر مامور ہے۔ اس مسلسل بربریت کے مناظر نے ہم سے ہمارا احساس چھین لیا ہے۔ اب ہماری راتیں اس سوچ میں نہیں گزرتیں کہ آج جو ہوا وہ سانحہ تھا۔ وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے دل نے اس رمز کو پا لیا ہےکہ جو ہوا وہ ہونا ہی تھا۔ اب ہماری پلکیں ان مناظر کو دیکھتے دیکھتے ہی بوجھل ہو جاتی ہیں۔ اور ہم نیند کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔ ہم یہ خونی داستانیں سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔ اور اٹھ کر پھر سے داستان وہی سے سننا شروع کر دیتے ہیں جہاں نیند کی دیوی نے سماعتوں سے بےنیاز کر دیا تھا۔
انبیاء کی سرزمین خون میں رنگی جا رہی ہے۔ کتنے ہی نومولود ہیں۔ جن کے جسم تک نہیں ملے۔ کتنے ہی سہاگ ہیں۔ کتنی ہی مائیں ہیں۔ بوڑھے بچے جوان۔ الغرض کون ہے جس کے خون سے زمین سیراب نہیں کی جا رہی۔ اور یہاں میرے معاشرے کے اہل درد کس قدر سرعت سے الزام ایک دوسرے کے کندھے پر رکھنے کو کوشاں ہیں۔ ان کا درد کس طریق سے ابل رہا ہے۔ ایک گرو پکار رہا ہے۔ ڈوب مرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی۔دوسرا واویلا کر رہا ہے۔ نہیں تم ڈوب مرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی۔ ایک مسجد سے صدا بلند ہو رہی ہے۔ اے اللہ! یہ فلاں و فلاں و فلاں مر جائیں۔ ان کی وجہ سے آج اہل فلسطین برباد ہیں۔ دوسری مسجد سے رقت آمیز دعائیں کی جا رہی ہیں۔ اے مولا! رسوا کردے ان کو۔ کہ ان کی وجہ سے ہی آج اہل یہود غالب ہیں۔اپنے اپنے فرقوں اور مسالک کا بوجھ لئے اپنے بغض کی نکاسی میں مصروف ہیں۔ کہ اگر یہ چپ رہیں تو مر جائیں۔ اس قدر بغض و نفرت کے بعد بھلا کون خوش رہ پایا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک وہ گروہ ہے جس کے نزدیک جرم مارنے والے کا نہیں مرنے والے کا ہے۔ کہ کیوں مر گیا۔ جب دیکھ لیا کہ بم آرہا ہے۔ بارود آ رہا ہے۔ تو ایک طرف کیوں نہ ہٹ گیا۔ مصلحت کو کیوں نہ اپنایا۔ اب مرنے پر واویلا کیوں۔انسانوں کے اس روپ سے انسانیت خود نوحہ کنا ں ہے۔
مظلوم ان تماش بینوں کی طرف حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کچھ کر نہیں سکتے لیکن ہمارے درد میں شریک ہیں۔ جبکہ اس معاشرے میں بسنے والوں کی حالت اس گروہ کی سی ہے جو طوائف کا مجرا نہیں دیکھ سکا تو اب دیکھنے والوں سے قصے سن کر حظ اٹھا رہا ہے۔
میرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گزری
ایک بےحسی ایک وحشت طاری ہے۔ جانے کب کس کا دل کرے اور لاشوں سے بازار پٹ جائے۔ قاتل کب دیکھتے ہیں کہ سہاگ تھا۔ نومولود تھا۔ یا پھر معاشرے کا ناسور تھا۔وہ تو بس اپنی وحشی طبع کی تسکین کرتے ہیں۔اور جسم کو عبرت کا نشان بنانے کو چھوڑ جاتے ہیں۔ لاشیں گرائی جاؤ۔ لاشیں اٹھائی جاؤ۔ بقول جون ایلیا "جشن کے ساتھ سوگ مناؤ۔ سوگ کے ساتھ جشن مناؤ۔" ایسے میں جب کبھی اپنے ماحول پر نظریں دوڑاؤ۔ اردگرد بستے لوگوں کو دیکھو۔تو دل بےاختیار قہقہے لگانے لگتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیسا خوش قسمت ہے۔ اس دور پر آشوب میں ہنسی اس کے ہونٹوں پر ہے۔ لیکن اس ہنسی سے پہلے کتنا خون تھوکا گیا ہے۔ اس پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گزری
انبیاء کی سرزمین خون میں رنگی جا رہی ہے۔ کتنے ہی نومولود ہیں۔ جن کے جسم تک نہیں ملے۔ کتنے ہی سہاگ ہیں۔ کتنی ہی مائیں ہیں۔ بوڑھے بچے جوان۔ الغرض کون ہے جس کے خون سے زمین سیراب نہیں کی جا رہی۔ اور یہاں میرے معاشرے کے اہل درد کس قدر سرعت سے الزام ایک دوسرے کے کندھے پر رکھنے کو کوشاں ہیں۔ ان کا درد کس طریق سے ابل رہا ہے۔ ایک گرو پکار رہا ہے۔ ڈوب مرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی۔دوسرا واویلا کر رہا ہے۔ نہیں تم ڈوب مرو۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی۔ ایک مسجد سے صدا بلند ہو رہی ہے۔ اے اللہ! یہ فلاں و فلاں و فلاں مر جائیں۔ ان کی وجہ سے آج اہل فلسطین برباد ہیں۔ دوسری مسجد سے رقت آمیز دعائیں کی جا رہی ہیں۔ اے مولا! رسوا کردے ان کو۔ کہ ان کی وجہ سے ہی آج اہل یہود غالب ہیں۔اپنے اپنے فرقوں اور مسالک کا بوجھ لئے اپنے بغض کی نکاسی میں مصروف ہیں۔ کہ اگر یہ چپ رہیں تو مر جائیں۔ اس قدر بغض و نفرت کے بعد بھلا کون خوش رہ پایا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک وہ گروہ ہے جس کے نزدیک جرم مارنے والے کا نہیں مرنے والے کا ہے۔ کہ کیوں مر گیا۔ جب دیکھ لیا کہ بم آرہا ہے۔ بارود آ رہا ہے۔ تو ایک طرف کیوں نہ ہٹ گیا۔ مصلحت کو کیوں نہ اپنایا۔ اب مرنے پر واویلا کیوں۔انسانوں کے اس روپ سے انسانیت خود نوحہ کنا ں ہے۔
مظلوم ان تماش بینوں کی طرف حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کچھ کر نہیں سکتے لیکن ہمارے درد میں شریک ہیں۔ جبکہ اس معاشرے میں بسنے والوں کی حالت اس گروہ کی سی ہے جو طوائف کا مجرا نہیں دیکھ سکا تو اب دیکھنے والوں سے قصے سن کر حظ اٹھا رہا ہے۔
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
میں ان مقتولوں، مظلوموں آس لگائے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم ان کی طرف حسرت و امید سے مت دیکھو۔ یہ وہ گروہ ہے کہ جب ان کے بازار میں معصوم بچے ڈنڈے مار مار کر قتل کئے جا رہے تھے تو یہ تماش بینی میں مصروف تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ جو ایک ریپ کے بعد لٹکائی گئی لڑکی کی لاش پر یہ سوچتے رہے کہ مقدمہ درج ہونا چاہیے کہ نہیں۔ کہیں ریپ اور قتل کرنے والا گروہ امیر ہوا تو مقدمہ درج کرنے والوں کا ریپ ہوجائے گا۔ یہ وہ تماش بین قوم ہے جو غریب کے دو سال کے بیٹے کو ٹریکٹر کے نیچے کچل کر اس کو مرتے اور تڑپتے دیکھ کر لطف لیتی ہے۔اور اپنے خاموش رہنے کے لئے ایک سے ایک تاویل تراش لیتی ہے۔ ماں باپ کے سامنے بیٹیوں کی عزت لوٹتی ہے اور پھر اپنے گناہ کی مزید تشہیر کے لئے سب کو قتل کرتی ہے۔ یہ صرف اور صرف فریق مخالف کو گالیوں سے نواز سکتے ہیں۔ یہ سگانِ سیاست کے لئے دن رات مباحث کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس تمہارے لئے وقت کہاں ہے۔ ان کو تو اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماؤں کو ولی ثابت کرنا ہے۔ یہ ان سیاسی مداریوں کے جھوٹے وعدوں کو وقت کی پکار کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک گناہ صرف وہ ہے جو کوئی ایک آدمی کر رہا ہو۔ اگر سب اس میں ملوث تھے یا رہے ہیں تو گناہ نہیں رہا۔ اس قوم سے بھلائی کی امید جو قبروں سے لاشیں نکال کر ان کی بےحرمتی کرتی ہے۔ اس قوم سے امید۔ اس قوم سے رحم کی توقع۔ اس قوم سے مدد کی آس۔ جو آج تک اپنے لئے نہیں لڑ پائے وہ کسی اور کے لئے کیا لڑیں گے۔اگر تم ان کے پاس فریاد لے کر آؤ گے تو یہ محض دوسرے گروہ کو گالیاں دے کر تمہاری تشفی کا سامان کریں گے۔جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
وجہِ بے رنگیِٔ گلزار کہوں یا نہ کہوں!
کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!
شیطان ہنس رہا ہے۔ رقص میں ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک پورا گروہ جو پچھلی چند دہائیوں میں لکھ پتی سے عرب پتی بنا ہے۔ رقصاں ہے۔ موت، بےبسی،غربت اور جہالت اپنے پر پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ تاریکی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔انسانیت ظلم کے پنجہ میں بے بس ہے۔ بےحسی رگوں میں لہو بن کر رواں ہے۔ آدمیت نوحہ کناں ہے۔ اوروہ ذات جبار و قہار، رحمن و رحیم توبہ کا منتظر ہے۔ سچی توبہ کا۔اس کی صفتِ کریمی کسی سچے سائل کی منتظر ہے۔ اجالا منتظر ہے۔ مگر تاریکی کے دیوانے ظلمت کو اپنا کر اس قدر خوش ہیں کہ اجالے کی کرنوں سے اب ان کا دم گھٹنے لگا ہے۔اب تاریکی کے سفر کو اوج ملنے والی ہے۔کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!
آخری تدوین: