دیدار کی ہوس ہے نہ شوق وصال ہے
آزاد ہر خیال سے مست خیال ہے
کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے
فتویٰ دیا ہے مفتیٔ ابر بہار نے
توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو
ان ساغروں میں بوئے شراب وصال ہے
برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو
پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے
آنکھیں لڑا کے ان سے ہم آفت میں پڑ گئے
پلکوں کی ہر زبان پہ دل کا سوال ہے
بت کہہ دیا جو میں نے تو اب بولتے نہیں
اتنی سی بات کا تمہیں اتنا خیال ہے
میں دامن نیاز میں اشک چکیدہ ہوں
کوئی اٹھا کے دیکھ لے اٹھنا محال ہے
پوچھا جو ان سے جانتے ہو تم جلیلؔ کو
بولے کہ ہاں وہ شاعر نازک خیال ہے