مغزل
محفلین
غزل
یہ شہر، شہرِ غزالانِ خوش نظر بھی ہے
نئی کراچی غریبوں کا مستقر بھی ہے
یہ وقت، دھوپ، خزاں و بہار، رات و دن
یقین کیجئے سحر بعد دوپہر بھی ہے
متاعِ عشق کی بابت بتائیں کیا تم کو
بیان و حرف میں الجھا ابھی ہنر بھی ہے
نہیں وہ شخص سرِ آئِنہ نہیں آتا
حقیقتوں سے تصادُم کا اُس کو ڈر بھی ہے
غزل شعار کہاں نظم و ضبط دیکھتے ہیں
یہ نسخہ سہل بھی ہے اور کارگر بھی ہے
ورق مثال کُھلی آنکھ بر سرِ راہے
نظر کے پیشِ نظر اور اک نظر بھی ہے
مقامِ شوق جسے کہہ رہا ہے میرا دل
اسی مقام سے آگے نیا سفر بھی ہے
سید انور جاوید ہاشمی،کراچی
یہ شہر، شہرِ غزالانِ خوش نظر بھی ہے
نئی کراچی غریبوں کا مستقر بھی ہے
یہ وقت، دھوپ، خزاں و بہار، رات و دن
یقین کیجئے سحر بعد دوپہر بھی ہے
متاعِ عشق کی بابت بتائیں کیا تم کو
بیان و حرف میں الجھا ابھی ہنر بھی ہے
نہیں وہ شخص سرِ آئِنہ نہیں آتا
حقیقتوں سے تصادُم کا اُس کو ڈر بھی ہے
غزل شعار کہاں نظم و ضبط دیکھتے ہیں
یہ نسخہ سہل بھی ہے اور کارگر بھی ہے
ورق مثال کُھلی آنکھ بر سرِ راہے
نظر کے پیشِ نظر اور اک نظر بھی ہے
مقامِ شوق جسے کہہ رہا ہے میرا دل
اسی مقام سے آگے نیا سفر بھی ہے
سید انور جاوید ہاشمی،کراچی